کالا باغ بند
وکیپیڈیا سے
پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی منصوبہ اتنا متنازعہ ہوا ہوگا جتنا کہ کالا باغ ڈیم۔ دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا خیال پہلی مرتبہ نصف صدی قبل سن انیس سو تریپن میں حکومتِ پاکستان کو آیا تھا۔
کالا باغ انیس سو تہتر تک پانی ذخیرہ کرنے کا ایک منصوبہ ہی رہا لیکن بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ اور قیمتوں نے واپڈا کے ماہرین کو اسے پن بجلی تیار کرنے والے ڈیم میں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔
ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے کی سروے رپورٹوں پر اب تک حکومت کے ایک ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ منصوبے نے سیاسی رنگ اختیار کر لیا اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھ لگ گیا۔
ڈیم کے حامی اس کے فوائد بتاتے نہیں تھکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے اُنہیں چھ اعشاریہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائےگی جبکہ اس کے بجلی گھر سے چوبیس ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی فراہم ہوسکے گی۔
اس کے علاوہ اس ڈیم سے تربیلا اور منگلا ڈیموں کی زندگی بڑھنے، سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی فراہم کرنے جیسے فوائد بتائے جاتے ہیں۔ اس پر آنے والا خرچہ سن انیس سو ستاسی کے اندازے کے مطابق پانچ ارب ڈالر سے زیادہ تھا جوکہ اب آٹھ ارب سے بھی بڑھ چکا ہے۔
حکام اس ڈیم کے فوائد تو بیان کرتے ہیں لیکن اس کے نقصانات سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا کوئی نقصان نہیں ہے۔
لیکن یہ فارمولا ملک کے تین چھوٹے صوبوں کو قبول نہیں۔ وہ ان فوائد کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ اسے کالا باغ نہیں بلکہ کالا ناگ کہتے ہیں۔
سندھ، سرحد اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں اس ڈیم کے خلاف اب تک کئی متفقہ قراردادیں منظور کرچکی ہیں جس سے اس منصوبے کی شدید مخالفت ظاہر ہوتی ہے۔
ڈیم مخالف ماہرین اسے صوبہ سرحد اور سندھ کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے اس کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی، زرخیز علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے اور مزید اراضی سیم اور تھور کا شکار ہوجائے گی۔
صوبائی حکومت کے کہنے پر واپڈا پہلے ہی اس ڈیم کی اونچائی دس فٹ تک کم کرنے پر تیار ہوگیا ہے تاکہ اس کے منفی اثرات کو کم کیا جاسکےآ اس اقدام سے ان خدشات کو مزید تقویت ملی ہے کہ یہ منصوبہ واقعی نقصانات کا باعث بھی ہے۔
صوبہ سرحد وہ واحد صوبہ نہیں جس کو اس ڈیم پر اعتراضات ہیں۔ جنوبی صوبہ سندھ کے اپنے خدشات ہیں۔ اسے ماضی میں پنجاب سے سب سے بڑی شکایت اس کے حصے کا پانی نہ ملنا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ ایک اور ڈیم کی تعمیر سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
صوبہ بلوچستان کا اگرچہ اس منصوبے سے براہ راست کوئی تعلق تو نہیں لیکن اس کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتا ہے لہٰذا اس کے موقف کی تائید کرے گا۔
ایسی صورتحال میں جب کالا باغ ڈیم منصوبے پر سرحد اور سندھ کے قوم پرست عناصر اپنے موقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، اس پر کام کا جلد آغاز ناممکن نظر آتا ہے۔ یہ ڈیم اتنا سیاسی ہوچکا ہے کہ اسے چھونا ایک سیاسی طوفان کھڑا کر سکتا ہے۔