حبیب النجار

وکیپیڈیا سے

انطاکیہ ’’ترکی‘‘ کے ایک ولی۔ کوہ سلپیس کی چوٹی پر جو مزار ہے اُس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ انہی کا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ سورۃ یٰسین آیات 13 تا 29ء میں جس شخص کا ذکر ہے وہ بزرگ یہی ہیں۔ انجیل میں بھی اس سے ملتا جلتا ایک قصہ ہے۔ لیکن اس قصے کے ہیرو کا نام اگابس ہے۔ مفسرین نے قرآن کی مذکورہ بالا آیات کی تشریح میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی نے خدا کے حکم سے اہل انطاکیہ کی ہدایت کے لیے دو پیغمبر حضرت یحٰیی اور حضرت یونس بھیجے جنہیں ان لوگوں نے جھٹلایا۔ منحوس کہا اور قتل کی دھمکی دی۔ عین اس وقت حضرت نجار دوڑے ہوئے آئے اور چلا کر کہا کہ یہ سچے نبی ہیں لیکن لوگ ان کی بات ماننے کے بجائے ان پر ٹوٹ پڑے اور انھیں قتل کرکے کہنے لگے۔ ’’جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ اس واقعے کے بعد اس قوم پر عذاب الہی نازل ہوا لیکن اللہ نے ان کی ہلاکت کے لیے آسمان سے کوئی چیز نہیں بھیجی بلکہ حضرت جبرائیل نے شہر پناہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر ایسی دہشت ناک چیخ ماری کہ تمام کافر ہلاک ہو کر راکھ کا ڈھیر ہوگئے۔ مفسرین کے بقول حضرت حبیب النجار پہلے کافر تھے اور لکڑی کے بت بنایا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کا لقب نجار ہوا۔ بعد میں پیغمبروں پر ایمان لے آئے تھے۔ الدمشقی نے نخبتہ میں لکھا ہے کہ جب ان کو شہید کیا گیا تو وہ تین دن تک اپنا کٹا ہوا سر اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے رہے اور زبان توحید الہی کے کلمات کا ورد کرتی رہی۔