جنوبی ہند پر مسلمانوں کا قبضہ

وکیپیڈیا سے

جنوبی ہند پر سب سے پہلے 1294ء میں علاؤ الدین خلجی نے اپنے زمانۂ شہزادگی میں حملہ کیا اور خاندیش اور بہار سے گزر کر دیوگری کے راجا کو شکست دی ۔ جس نے خراج کے وعدے پر صلح کر لی۔ 1306ء میں سلطان علاؤ الدین نے ملک کافور کو جنوبی ہند کی تسخیر پر مامور کیا۔ ملک کافور نے دیوگری کے باغی راجا کو شکست دے کر وارنگل فتح کیا اور دریائے کرشنا عبور کرکے دوارکا پر قبضہ کر لیا۔ ملک کافور جنوبی ساحل کے آخری سرے تک پہنچ گیا اور فتح کی نشانی کے طور پر مدورا میں ایک مسجد تعمیر کرائی ۔ اور پھر دہلی کا رخ کیا۔ علاؤ الدین خلجی کی وفات پر دیوگری اور وارنگل نے بغاوت کردی۔ 1323ء میں شہزادہ جونا خاں ( محمد تغلق) نے انھیں دوبارہ سلطنت دہلی میں شامل کر لیا۔

1326ء میں سلطان محمد تغلق نے دہلی کے بجائے دولت آباد ’’دیوگری‘‘ کو اپنا دارلحکومت بنایا اور شمالی ہند سے بہت سے مسلمان جنوبی ہند میں آکر آباد ہوگئے۔ سلطان محمد تغلق کے عہد میں جنوبی ہند ’’میسور ، اور مالابار سمیت‘‘ مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ 1342ء میں ظفر خاں کو دکن کا گورنر مقرر کیا گیا جس نے 1347ء میں مرکز سے علیحدہ ہو کر آزاد بہمنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بہمنی سلطنت کے چودہ باشاہ گزرے ہیں۔ انھوں نے 1518ء تک حکومت کی۔ بہمنی سلطنت کے ساتھ ہی 1350ء میں جنوبی ہند میں وجے نگر کی ہندو حکومت بنی جس کا مقصد مسلمانوں کے حملے کو روکنا تھا۔ بہمنی سلطنت اور وجے نگر کی ہندو حکومت اکثر برسرپیکار رہتی تھی۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد اس کے آثار پر برید شاہی ، حماد شاہی ، نظام شاہی ، عادل شاہی ، قطب شاہی پانچ چھوٹی چھوٹی اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں۔ بہمنی سلطنت کے زوال پر وجے نگر کی ہندو حکومت مضبوط ہوگئی اور دکن کے مسلمان سلاطین کو آپس میں لڑا کر انہیں کمزور کرنے لگی۔ بالاخر 1565ء میں جنگ تلی کوڑ میں مسلمان سلاطین نے متحد ہو کر وجے نگر کو شکست دی۔ اور اس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ گولکنڈا اور بیجاپور کی سلطنتوں کے عہد میں اردو ادب اور زبان نے خوب نشوونما پائی۔ بالآخر یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں 1636ء اور 1687ء میں اورنگزیب عالمگیر نے فتح کرکے مغلیہ سلطنت میں شامل کر لیں۔