علی علیہ السلام

وکیپیڈیا سے

  • (ص) : اختصار براۓ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم
  • (ع) : اختصار براۓ علیہ السّلام
  • (ر) : اختصار براۓ رضی اللہ عنہ
  • (رح): اختصار براۓ رحمت اللہ علیہ
  • ء --- حمزہ  : علامت براۓ سن عیسوی
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اسلام

تاریخ اسلام

عـقـائـد و اعـمـال

خدا کی وحدانیت
قبولیت اسلام
نمـازروزہ
حـج • خـیـرات

اہـم شـخـصـیـات

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضرت علیحضرت ابوبکر حضرت عثمان حضرت عمر
احباب حضور اکرم
حضور اکرم کا خاندان
دیگر پیغمبران

کـتـب و قـوانـیـن

قرآنحدیث • شرعیت
قوانین • کلام
سـیـرت

مسلم مکتبہ ہائے فکر

سنیشـیعہصوفی

معاشرتی و سیاسی پہلو

اسلامیات • فلسفہ
فنون • سائنس
فن تعمیر • مقامات
سالنامہ (کلنڈر) • تعطیلات
خواتین اور اسلام • رہنما
سیاسیات • جہاد • آذاد خواہی

مزید دیکھیئے

اسلامی اصطلاحات
اسلام پر مضامین کی فہرست

فہرست

[ترمیم کریں] خانہ داری

علی
مکمل نام علی ابن ابی طالب
ترتیب اول
جانشین حسن علیہ السلام
تاریخ ولادت جمعہ، 13 رجب، 22 قبل ہجری
جائے ولادت خانۂ کعبہ، مکہ مکرمہ
لقب ابو تراب
کنیت ابو الحسن
والد ابو طالب ابن عبد المطلب
والدہ فاطمہ بنت اسد
تاریخ وفات 21 رمضان، 40 ہجری
جائے وفات نجف، عراق
وجۂ وفات شہادت

فاطمہ علیہا السلام اور علی علیہ السلام کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی مرد اور عورت اپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک ُ حیات ثابت ہوسکتے ہیں . اپس میں کس طرح تقسیم عمل ہونا چاہیے اور کیوںکر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے , وہ گھر دنیا کی ارائشوں سے دور , راحت طلبی اور تن اسانی سے بالکل علیحدہ تھا , محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور اپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناہوا تھا , جہاں سے علی علیہ السلام صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے او جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لا کر گھر پر اتے تھے .بازار سے جو خرید کر فاطمہ علیہا السلام کو دیتے تھے اور فاطمہ چکی پیستی , کھانا پکاتی او رگھر میںجھاڑودیتی تھیں , فرصت کے اوقات میںچرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں .

[ترمیم کریں] جہاد

مدینہ میں اکر پیغمبر کو مخالف گروہ نے ارام سے بیٹھنے نہ دیا . اپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا . بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پہنچائیں . یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھئی کردی , اس موقع پر رسول کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوںنے کہ اپ کوانتہائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور اپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا , اپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا اپ شہر کے اندرر کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی صر امن ابادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے. گو اپ کے ساتھ تعدادبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ ادمی تھے , ہتھیار بھی نہ تھے مگر اپ نے یہ طے کرلیا کہ اپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریںگے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی. جو جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہے . اس لڑائی میں زیادہ رسول نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ اپ کے چچا زاد بھائی عبیدہXR ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے . علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا . 52 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السّلام کے سر رہا .جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میںسے ادھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد ,اُحد,# خندق#,خیبر#,اور اخر میں حنین#یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول نے علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اورانھوںنے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی فتح دکھائی اور انتہائی استقلال , تحمّل اور شرافت ُ نفس سے کام لیاجس کاقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے , خندق کی لڑائی میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو جب اپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے اپ علیہ السّلام کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا . اپ کو غصہ اگیااور اپ اس کے سینے پر سے اتر ائے . صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کی تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگاکچھ دیر کے بعد اپ نے اس کو قتل کیا , اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کاقاتل علی علیہ السّلام کاسا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی , اپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا.

[ترمیم کریں] خدمات

علاوہ جہاد کے اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں اپ کو انکار نہ تھا .یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنائ خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن# کی جانب تبلیغ اسلام کے لئے پیغمبر علیہ السّلامنے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا جب سورہ براَت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے لئے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ براَت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں علی علیہ السّلام اسے اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے تھے-

[ترمیم کریں] اعزاز

حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ »علی علیہ السّلام مجھ سے ہیں اور میں علی علیہ السّلام سے ہوں« .کبھی یہ کہا کہ »میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے .,, کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے .,, کبھی یہ کہا»علی علیہ السّلام کومجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی .,,کبھی یہ کہا»علی علیہ السّلام مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے.,,

کبھی یہ کہ»وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح کاسرپرست اورحاکم ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام سب کے سرپرست اور حاکم میں ہوں اسی طرح علی سب کے سرپرست اور حاکم ہیں یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے.

[ترمیم کریں] رسول ص کی وفات

ہجرت کو دس برس پورے ہوئے تھے جب پیغمبر خدا س بیماری میں مبتلا ہوئے جو مرض الموت ثابت ہوئی , یہ خاندان ُ رسول کے لیے ایک قیامت خیز مصیبت کاوقت تھا . علی علیہ السّلام رسولکی بیماری میں برابر پاس موجود رہتے اور تیمارداری میں مصروف رہتے تھے اور رسول بھی علی علیہ السّلام کااپنے پاس سے ہٹنا ایک لمحہ کے لیے گوارانہ کرتے تھے . اپ نے علی علیہ السّلام کو اپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا کر بہت دیر تک اہستہ اہستہ باتیں کرتے رہے اور ضروری وصیتیں فرمائیں . اس گفتگو کے بعد بھی علی علیہ السّلام کو اپنے سے جدا نہ ہونے دیا اور ان کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا. جس وقت رسول کی روح جس سے سے جداہوئی ہے اس وقت بھی علی علیہ السّلام کاہاتھ رسول کے سینے پر رکھاہوا تھا .

[ترمیم کریں] بعدِ رسول

جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول اپ کی لاش کو کس طرح چھوڑتا, چنانچہ رسول کی تجہیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام علی علیہ السّلام ہی کے ہاتھوں ہوا اورقبر میں اپ ہی نے رسول کو اتارا , رسول کے دفن سے فرصت ہونے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اتنی دیر میں پیغمبر کی جانشینی کاانتظام ہوگیا ہے . اگر کوئی دوسرا انسان ہوتاتو جنگ ازمائی پر تیار ہوجاتا مگر علی علیہ السّلام کو اسلامی مفاد اتنا عزیز تھا کہ اپ نے اپنے حقوق کے اعلان کے باوجود اپنی طرف سے مسلمانوں میںخانہ جنگی پیدا نہیں ہونے دی , نہ صرف یہ کہ اپ نے معرکہ ارائی نہیں چاہی بلکہ جس وقت ضرورت پڑی , اس وقت اسلامی مفاد کی خاطر اپ نے امداد دینے سے دریغ بھی نہیں کیا , مشکل مسائل کے فیصلہ اور ضروری مشورہ لئے جانے پر اپنی مفید رائے کااظہار کیاا س سے کبھی پہلو نہیں بچایا . اس کے علاوہ بطور خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے . قران کو ترتیب ُ نزول کے مطابق ناسخ ومنسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا . مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا . بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں , زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے . ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفادملّی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انسان اپنی ملّت , قوم اور مذہب کی خدمت ہر حال میں کرتا رہے .

[ترمیم کریں] خلافت

پچیس برس تک رسول کے بعد علی علیہ السّلام نے خانہ نشینی میں بسر کی 53 ئھ میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا . اپ نے پہلے انکار کیا , لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیاتو اپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میںبالکل قران اور سنت ُ پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا . مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور اپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ اپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا , اپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہوگئے جنھیں اپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا , اپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل# اور صفین# اور نہروان# کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں . جن میں علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلام نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر# واحد# , خندق# وخیبر # میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے اپ کو موقع نہ مل سکا کہ اپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں . پھر بھی اپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی , مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے اپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروںکی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے , پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے , غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے . جو روپیہ بیت المال میں اتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے , یہاں تک کہ اپ کے سگے بھائی عقیلXR نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر اپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہوسکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے . مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں , انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو اپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے . اپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں ائے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے . اپ اسلامی خزانے میںمال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے .

[ترمیم کریں] شہادت

افسوس ہے کہ یہ امن , مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچااور 91ماہ رمضان 04ھئکو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا . اپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب اپ کے قاتل کو گرفتار کرکے اپ کے سامنے لائے اور اپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں تو اپ کو اس پر بھی رحم اگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا . اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوںگا تو معاف کردوں گا اور اگر میںدنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں , اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے , دو روز تک علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 12رمضان کو نمازِ صبح کے وقت اپ کی وفات ہوئی .حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں وہ انسانیت کاتاجدار ہمیشہ کے لیے ارام کی نیند سونے کے واسطے دفن ہوگیا۔