حیات بعد الممات
وکیپیڈیا سے
قدیم اقوام زندگی اور موت میں فرق نہیں سمجھتی تھیں۔ بلکہ موت کو طویل نیند سے تعبیر کیا جاتا تھا اور مردے کے ہمراہ اس کی روزمرہ ضروریات کا سارا سامان دفن کر دیا جاتا تھا۔ کہ جاگنے کے بعد اسے کھانے پینے کی تکلیف نہ ہو۔ قدیم مصر ، وادئ سندھ ، سومیری اور اشوری قوموں کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا سے جانے کے بعدانسان کو ملکہ ظلمات کے روبر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ لوح محفوظ کی مدد سے انسان کے اعمال کا محاسبہ کرتی ہے۔ اگر اعمال نیک ہوئے تو پھر انسان کو جنت میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ورنہ جہنم میں جھونک دیا جاتا ہے۔ ہندو آواگون ’’تناسخ‘‘ کے قائل ہیں جس کے مطابق آتما امر ہوتی ہے اور اعمال کے مطابق جون بدلتی رہتی ہے۔ آخر کار دیوتا بن جاتی ہے۔ بدھ مت حیات بعد الممات کو نہیں مانتا بلکہ نروان کا قائل ہے۔ جو انسان کو اپنی خواہشات اور خدمات پر قابو پانے سے حاصل ہوتا ہے۔ حیات بعد الممات اسلامی کے بنیادی ارکان میں شامل ہے۔ قرآن شریف کے مطابق سب لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور خدا کے حضور پیش ہوں گے۔ خدا ان کے اعمال کے بموجب اور سزا دے گا۔ عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی قریب قریب یہی عقیدہ ہے۔ اکثر فلاسفہ اور سائنسدان حیاب بعد الممات کے منکر ہیں ۔