دستورہاۓ بازی

وکیپیڈیا سے

Enlarge

ژاں رینائر کی فلم ’رولز آف دی گیم‘ جو گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران، چھ بار سو سال کی دس بہترین فلموں شامل رہی اور جسے بعض مبصر سب سے بہترین فلم بھی شمار کرتے ہیں جب پہلی بار 1939 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تو اس کے پہلے ہی شو میں تماشائی اس قدر مشتعل ہوئے کہ ان میں سے ایک نے اس سنیما گھر کو ہی آگ لگانے کی کوشش کی جس میں فلم دکھائی جا رہی تھی اور جسے دیکھنے والوں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ خود ژاں رینائر اور ان کی ٹیم کے لوگ بھی شامل تھے۔ جب تماشائی سنیما کو آگ لگانے کو کوشش کر رہا تھا تو باقی تماشائیوں کی اکثریت ناچ رہی تھی اور سیٹیاں بجا رہی تھی۔ یہی نہیں اس واقعے کے ایک ماہ کے اندر فرانسیسی حکومت نے فلم کی نمائش پر پابندی بھی لگا دی۔

اس کے بعد فرانس پر نازیوں کا قبضہ ہو گیا لیکن نازیوں نے بھی نہ صرف فلم کی نمائش پر اک بار پھر پابندی لگائی بلکہ اس کے جتنے بھی پرنٹ انہیں مل سکے وہ سب کے سب جمع کر کے نذرِ آتش کر دیئے۔ اس لیئے نازیوں کے زمانے تک فرانس میں اس فلم کی نمائش ممکن نہیں ہو سکی۔ کہیں اور اس کی نمائش اس لیے نہیں ہو سکی کہ کسی کے پاس فلم کا کوئی پرنٹ ہی نہیں تھا۔ فرانس میں ژاں رینائر کی یہ آخری فلم تھی۔ نازی قبضے کے بعد ژاں رینائر امریکہ منتقل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ژاں کے کچھ چاہنے والوں کے پاس فلم کے پرنٹ تھے لیکن انہیں بھی فرانس پر نازیوں کی بمباری سے بہت نقصان پہنچا تاہم جان بچانے کے اس دور میں کچھ لوگوں نے جس سے جو ممکن ہو سکا بچانے کی کوشش کی اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ژاں نے فلم کی تلاش شروع کی تو جس جس کے پاس پرنٹ کے جو جو حصے ملے انہیں جوڑ کر ایک بار پھر مکمل فلم تیار کر لی گئی۔

کہا جاتا ہے 1969 کے ورژن میں اصل فلم کے ’ کٹ‘ نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے اس فلم کو دیکھ کر نہ تو یہ محسوس ہوتا کہ اس کا کوئی حصہ یا منظر کم ہو گئے ہیں اور نہ ہی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں ایسی کیا بات تھی جس نے شائقین ہی کو مشتعل نہیں کیا بلکہ فرانسیسی حکومت اور بعد میں نازیوں کو بھی اس پر پابندی لگانے پر مجبور کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نازیوں نے فلم پر پابندی ’اخلاقی بنیادوں‘ پر لگائی۔

اس کے بعد 1999 میں فلم کے اصل نگیٹیو بھی مل گئے۔ یہ وہ نگیٹیو تھے جو پرنٹ جلانے سے پہلے ضبط کیئے گئے تھے اور جب فلم کے پرنٹ جلائے گئے تو نازی اہلکاروں کو خیال ہی نہیں آیا کہ فلم کے نگیٹیو بھی کہیں رکھے ہوئے ہیں۔

اگرچہ یہ نگییٹو خاصی خراب اور خستہ حالت میں تھے لیکن رینائر نے ایک بار ان سے اصل فلم تیار کر لی اور ڈی وی ڈی پر جو فلم دستیاب ہے وہ انہیں نیگیٹوز سے بنائی گئی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ 1959 میں تیار کی جانے والی فلم اور اب 1999 میں بنائی جانے والی فلم میں کوئی ایسا فرق نہیں جس سے اس کے مجموعی تاثر، اہمیت یا کہانی میں کوئی تبدیلی محسوس ہوتی ہو۔

لیکن جس طرح رینائر نے اس فلم سے وابستگی کا اظہار کرتے رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فلم ان کی ذات کے کسی گوشے سے کوئی گہرا تعلق رکھتی ہے۔

اگرچہ اس سے قبل انہوں نے 1937 میں ’گرینڈ ایلوژن‘ بھی بنائی جو نہ صرف یہ کہ مقبول ہوئی بلکہ آسکر کے لیے بھی نامزد ہوئی۔

یہ فلم ژاں کی وہ تخلیق ہے جس کے عظیم ہونے پر انہیں بے پناہ یقین تھا۔ شاید یہ فلم موضوع کے ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے اپنے وقت سے بہت آگے تھی اور جب اس کا وقت آیا تو اس کی قدر و قیمت بھی ہونے لگی اور ژاں رینائر کا اعتماد بھی درست ثابت ہوا۔

کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فلم کو ژاں ہی کی دوسری فلموں پر اس لیئے زیادہ ترجیح دی گئی کہ اسے شروع ہی سے لوگوں اور حکومتوں کی بدسلوکی کا بھی سب سے زیادہ نشانہ بننا پڑا۔

رینائر رولز آف دی گیم کے ڈائریکٹر ہی نہیں سکرپٹ رائٹر بھی ہیں اور وہ سکرپٹ پر آندرے وبودا کے ساتھ شریک تھے۔ وبودا فلم میں ان کے فرسٹ اسسٹنٹ بھی تھے۔

فلم میں بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے فرانسیسی امیروں اور غریبوں کی زندگیوں اور طور طریقوں کو دکھایا گیا ہے۔ اس اعتبار سے اس فلم کو طبقاتی بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے کچھ حصوں کی وجہ سے اسے بالغوں کے لیے بنائی گئی کامیڈی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے اسے ایک مبصر نے ’بد اخلاقوں‘ کے لیے بنائی گئی فلم قرار دیا تھا۔

کہانی کی دو سطحیں ہیں۔ ایک طرف تو جاگیردار رابرٹ ڈی لا شے نیست اور ویانا کی رہائشی ان کی حسین ترین اہلیہ کرسٹائن ہیں جنہوں نے اپنی دیہی رہائش گاہ پر فرانسیسی امیروں کو دعوت دی ہوئی ہے جس میں دولت مندی کے اظہار کے لیے کھانے، پینے اور رقص کے علاوہ شکار کا انتظام بھی ہے اور پارٹی کی زینت بنانے کے لیے ایک مہم جو ہوا باز کو بھی بلایا گیا ہے جس نے اسی دن اٹلانک کی پرواز کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ آندرئے ژیوغو ہیں جن کا کردار رولینڈ توتین نے کیا ہے۔

ایک طرف تو دعوت کی تیاریاں جاری ہیں اور دوسری طرف آندرئے اپنی ریکاڈ پرواز مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہے اور انہیں دعوت میں لے جانے کے لیئے ان کا اور جاگیردار رابرٹ شےنیست (مارسل دالیو) کی بیوی کرسٹائن شےنیست (نورا گریگور) کا ایک مشترکہ دوست اوکاؤ بھی استقبال کرنے والوں میں موجود ہے۔

آندرئے رابرٹ شےنیست کی بیوی کرسٹائن شےنیست سے محبت کرتا ہے لیکن اوکاؤ کو اس کا علم نہیں نہ ہی آندرئے کو یہ پتہ ہے کہ اس کی محبوبہ اب اس جاگیردار کی بیوی بن چکی ہے جس کے ہاں اس دوست اوکاؤ اسے لے جانے والا ہے۔

اوکاؤ تک پہنچنے سے پہلے ایک ریڈیو رپورٹر آندرئے سے مہم کی کامیابی پر تاثرات پوچھتی ہے تو وہ جواب دیتا ہے کے اسے ان تمام لوگوں میں جو اس کے استقبال کے لیے جمع ہوئے ہیں اپنی محبوبہ کو نہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ہے رپورٹر کے اصرار پر وہ اپنی محبوبہ کا نام بھی منکشف کر دیتا ہے۔

آندرے کا یہ انٹرویو دوسری طرف کرسٹائن بھی اپنی قریبی ملازمہ کے ساتھ سن رہی ہے اور اس کا شوہر بھی جو دعوت میں جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ کرسٹائن فوراً اپنے ماضی سے دستبردار ہو جاتی ہے اور یہ کہہ کر ریڈیو بند کر دیتی ہے کہ ’یہ مردقابلِ اعتبار نہیں ہوتے‘۔ اس کی اس بات سے اس کی ملازمہ بھی اتفاق کرتی ہے۔

دوسری طرف کرسٹائن کا شوہر اس بات پر جز بز ہوتا ہے کہ اس کے بیوی کسی اور کی محبوبہ بھی رہ چکی ہے اور یہ کہ اسے اس بات کا علم ریڈیو کے ذریعے کیوں ہوا۔ وہ اس بات کو دعوت میں اپنی داشتہ کو بلانے کا جواز بنا لیتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے کہ اس داشتہ کی مہمان اور بیوی کے عاشق آندرئے کی توجہ بٹانے کا کام لے گا تاکہ پارٹی میں کوئی بدمزگی نہ ہو۔

فلم کے اہم حصے شکار اور رابرٹ کے مکان کی بالائی منزل پر پہچان بدل کر کیا جانے والا کھیل ہیں۔ کھیل پہچان بدل کر کیا جانے والا رقص ہے، جس میں کھیل کا انتظام کرنے والا غلطی سے شناختیں تبدیل کر دیتا ہے۔

ایک طرف فلم میں یہ منافقت دکھائی ہے کہ وہی بات دعوت میں شریک لوگ ایک دوسرے سے نہیں کرتے جس کا سب کو علم ہے اور جو ریڈیو سے نشر بھی ہو چکی ہے لیکن سب کو اسکی ٹوہ بھی ہے۔ دوسری طرف شادی سے پہلے بیوی کی محبت کے انکشاف کو رابرٹ داشتہ کے بلانے کا جواز بنا لیتا ہے اور اسے غلط بھی نہیں سمجھنا چاہتا۔ یہی حال نیچے کی منزل میں ملازموں کے حصے کا بھی ہے۔

فلم کے بارے لوگوں کے اشتعال کی ایک بڑی وجہ اس کے جنسی منظر بھی ہو سکتے ہیں لیکن ژاں رینائر نے امیروں کی سرشت کو دکھانے کے لیے جس طرح شکار کے مناظر فلمائے ہیں اور جیسے ملازم خرگوشوں کو ہانکتے ہوئے شکاریوں کے نشانے پر لاتے ہیں وہ اس قدر پُر اثر ہیں کہ نہ صرف شکار کرنے والوں سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے بلکہ بے بسی سے دم بھی گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی سارے کرداروں کے رویّوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ خود اپنے ہی سامنے بے بس اور بے قابو ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ ان سے سرزد ہو رہا ہے۔ یہی اس فلم کا حسن ہے اور یہی اس کا جھنجھوڑنے والا پہلو۔

فلم میں اوکاؤ (ژاں رینائر) کہانی اور کرداروں کا درمیانی رشتہ ہے۔ اسے میزبانوں اور مہمانوں سے ہی شناسائی حاصل نہیں ملازموں سے بھی قربت حاصل ہے۔

فلم میں کوئی ٹرک شاٹ نہیں لیکن شاید تاریخی طور پر رولز آف دی گیم پہلی فلم تھی جس میں کیمرہ بھی ایک کردار محسوس ہوتا ہے اور اس سٹرکچر نے فلم سازوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔