انجمن حمایت اسلام
وکیپیڈیا سے
اس انجمن کے قیام کا محرک بھی وہی جذبہ تھا جس نے سرسید احمد خان کو علی گڑھ کالج قائم کرنے پراکسایا تھا۔ تقریباً بیسویں صدی کے شروع میں قاضی خلیفہ حمیدالدین مرحوم کی مساعی سے اس انجمن کا قیام عمل میں آیا اوراس کا دفتر لاہور کے اندر حویلی سکندر خاں کے ایک چھوٹے سے مکان میں کھولا گیا۔ قاضی صاحب کے رفقائے کا میں مولوی غلام اللہ ۔ منشی عبدالرحیم ، منشی چراغ دین ۔ حاجی میر شمس الدین ، خان نجم الدین اور ڈاکٹر محمد دین ناظر شامل تھے۔ انجمن ککے پہلے اجلاس (منعقدہ 24 ستمبر 1884) میں سال بھر کی مجموعی آمدنی سات سو چون روپے اور کل خرچ تین سو چوالیس روپے تھا۔ مگر بزرگوں نے جس انجمن کی بنیاد اس بے سروسامانی کے عالم میں رکھی تھی وہ کچھ عرصہ بعدایک مہتمم بالسان تعلیمی اور ثقافتی ادارہ بن گئی۔
ایک زمانے میں انجمن کے سالانہ جلسوں کاچرچا سارے برصغیر میں تھا اور اس کی تقریب کو قومی تیوہار کی سی حیثیت حاصل تھی۔ برصغیر کے نامور رہنما ، اہل علم و دانش ، ادیب ، شاعر اور سیاست دان اس کی کاروائی میں شامل ہوتے تھے۔ ان میں سرسید، مولانا الطاف حسین حالی ، مولانا شبلی نعمانی ، محسن الملک ، سر محمد شفیع، سر شیخ عبدالقادر ، جسٹس شاہ دین اور علامہ اقبال بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ان زعما نے انجمن کے جلسوں میں اپنی نظمیں ، مقالے اور مضامین پیش کیے۔ علامہ اقبال نے بعض مشہور نظمیں انجمن کے ہی جلسوں میں پڑھیں۔ انجمن کے زیراہتمام متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ ایک طبیہ کالج اور دو یتیم خانوں کا انتظام بھی انجمن کے ہاتھ میں ہے۔ کالج اورسکول قومی تحویل میں لے لیے گئے ہیں۔