ابو سالم انڈین ڈان

وکیپیڈیا سے

Mansoor Mehdi

انڈر ورلڈ کا ڈان ابو سالم بھی دیگر نوجوانوں کی طرح اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہوا مگر اسے کوئی ملازمت نہ ملی تو اس نے آبائی قصبے کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور دہلی چلا آیا جہاں پر اس نے ٹیکسی ڈارئیور کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا مگر وہ اس سروس سے مطمئین نہیں تھاکیونکہ اس میں تو اس کا گزارا بھی مشکل سے ہوتا تھا جبکہ وہ اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کیلئے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا چاہتا تھا ابو سالم کوئی عام نوجوان نہیں تھا بلکہ وہ کھٹن راہوں پر چل کر اپنی منزل تلاش کرنے کا عادی تھا چنانچہ اس نے ممبئی جانے کا ارادہ کر لیا اور ایک دن دہلی کو بھی خیر باد کہہ دیا 80ءکی دہائی کے وسط میں ابوسالم ممبئی چلا آیا اور ایک ٹیلی فون بوتھ چلانے لگا یہاں پر اس کی ملاقات اپنے چچا زاد بھائی اختر انصاری سے ہوئی جو جرائم کی دنیا سے وابستہ تھا اور سید ٹوپی کا داہنا ہاتھ مانا جاتا تھا چنانچہ اس نے بھی دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے جرائم کرنے شروع کر دیے ۔یہاں وہ ان کے ساتھ مل کر زمین اور جائیداد کے جھگڑے نمٹانے لگے لیکن وہاں انہی دنوں اپنی کالج جانے والی ایک محبوبہ کے اغواءکے الزام میں پکڑا گیا جس کے بعد وہ اندھیری سے سانتا کروز آگیا جہاں پرانہوں نے ایک ٹریول ایجنسی میں کام کیا پھر اس کے تعلقات میں اضافہ ہو تاگیا اور ایک دن اس کی ملاقات داﺅد ابراہیم کے چھوٹے بھائی انیس ابراہیم سے ہوئی جو بعد میں اچھے تعلقات بن گئے اورروزانہ ابو سالم اس سے ملنے جلنے لگا جلد ہی ابو سالم داﺅد ابراہیم کے گینگ میں شامل ہو گیا اور اس کیلئے بندوق اٹھا لی ابوسالم کی ذمہ داری گینگ کے نشانہ بازوں کیلئے شہر میں مختلف مقامات پر اسلحے کی ترسیل تھی۔مگر اپنی بہادری اور خصوصیات کی بنا پر جلد ہی اس نے اس گروہ میں اپنا مقام بنا لیا اور اسے ترقی مل گئی چنانچہ اس نے اپنے باس کیلئے کاروباری لوگوں اور بالی وڈ کی شخصیات سے بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کرنے والا یہ نوجوان جلد ہی ممبئی کا ایک بڑا غنڈہ بن گیا جس سے ممبئی کے بڑے بڑے تاجر ، صنعت کار ، بالی وڈ کے اداکار اور فلمسازڈرنے لگے اور اس کو منہ مانگا بھتہ دینے لگے ابو سالم پر بھارتی حکومت نے جو الزامات لگائے ہیں ان میں متعدد معروف شخصیتوں کا قتل ،اغوا ، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین الزام ہیں جبکہ 1993میں ممبئی میں ہونے والے دھماکوں میں حصہ لینے کا بھی الزام ہے جس میں تقریباً 250سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ابو سالم داﺅد ابراہیم کے گروہ میں کافی عرصہ تک مختلف نوعیت کے کام کرتا رہا مگر اس کی طبیعت میں اکھڑ پن کی وجہ سے بعد میں اس کا داﺅد ابراہیم سے اختلاف ہو گیا جبکہ فلم ساز گلشن کمار کے قتل کے بعد ابوسالم اور داﺅد ابراہیم میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور یہ داﺅد ابراہیم کے گروہ سے علیحدہ ہو گیاجبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گلشن کمار کاقتل ابوسالم نے اپنی مرضی سے کیا تھا جس میں داﺅد ابراہیم کی مرضی شامل نہیں تھی چنانچہ داﺅد ابراہیم نے ابوسالم کو اپنے گروہ سے نکال دیا مگر اس دوران ابوسالم کا نام بھی شہرت پکڑ چکا تھا چنانچہ اس نے اپنا گروہ بنا لیا اور مجرمانہ سرگرمیوں کو جاری رکھا جب ممبئی دھماکوں میں اس کا نام آیا اور بھارتی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں اس کے پیچھے پڑ گئیں تو ابوسالم اپنی محبوبہ فلمی اداکار مونیکا بیدی کے ساتھ جعلی کاغذات بنوا کر بپرتگال فرار ہو گیا اور پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں رہائش اختیار کر لی۔جس کا بعد میں بھارتی حکومت کو پتہ چل گیا چنانچہ بھارت کی سی بی آئی نے حکومت کے ایما پر پرتگال کی حکومت سے ابوسالم کی حوالگی کیلئے درخواست دی کئی سال تک اس درخواست کی سماعت عدالت میں ہوتی رہی آخر کار پرتگال حکومت نے کچھ شرائط پر ابوسالم اور اس کی محبوبہ مونیکا بیدی کو بھارتی حکومت کے حوالے کر دیاجنہیں سی بی آئی ایک چارٹر طیارے کے ذریعے 10نومبر2005کوہندوستان لے لائی مافیا ڈان ابو سالم جس کا نام عبدالسالم انصاری ہے اور اس کا تعلق ہندوستان کی شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے سرائے میر نامی سے ہے جو اعظم گڑھ سے تقریباً 25کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ابو سالم کو لزبن سے ہندوستان لانے کی خبر ان کے آبائی قصبے تک پہنچتے ہی سارے قصبے کے لوگوںنے خاموشی اختیار کر لی سرائے میر کے باشندوں نے 1984کے بعد ابو سالم کو اس علاقے میں نہیں دیکھا تھا اور جن لوگوں کے ذہن میں اس کی چند یادیں بچی ہیں وہ ابو سالم کواب یاد نہیں کرنا چاہتے مقامی باشندے ذاتی طور پر ابو سالم سے ناراض تو نظر آئے لیکن گذشتہ برسوں میں جس طرح میڈیا نے ابو سالم کے بارے میں لکھا ہے اس سے وہ میڈیا سے بھی ناراض ہیں مقامی باشندوں نے صاف طور پر میڈیا کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور سرائے میر کا کوئی بھی شخص کچھ بھی کہنے کیلئے تیار نہیں ہے اس بات کا اندازہ ابو سالم کے 16سالہ بھتیجے محمد عارف انصاری کے بیان سے صاف طور پر لگایا جاسکتا ہے ۔جب بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا کے کچھ افرادنے ان سے ابوسالم کے بارے میں سوالات کیے تو محمدعارف انصاری کا کہنا تھا کہ آپ لوگ ہم سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ آپ لوگ تو و ہی کچھ لکھیں گے جو آپ چاہتے ہیں محمدعارف انصاری نے یہ بتانے سے صاف انکار کردیا کہ ان کے والد یعنی ابوسالم کے بڑے بھائی اور اسکی دادی یعنی ابو سالم کی والدہ اس وقت کہاں ہیں حالانکہ ان کے گھر کے صحن میں عورتوں اور بچوں کے کپڑے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ گھر میں کون کون ہو سکتا ہے محمد عارف انصاری نے بمشکل صرف اتنا بتایا کہ اس کی دادی خبر سننے کے بعد کافی غمگین ہو گئی ہیں اس نے کہا کہ آپ لوگ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے چاہے ابوسالم بھلے ایک انٹر نیشنل کریمنل ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ ان کی اولاد ہے محمد عارف انصاری نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا کہ جس میں کہا جا رہا تھا کہ سرائے میر صرف ابو سالم کے رحم و کرم پر ہے عارف انصاری کا کہنا تھا کہ یہاں زندگی اپنے آپ میں ہی بہت کچھ ہے ابو سالم کے ایک پڑوسی کا کہنا تھا کہ جو لوگ ابو سالم کو نزدیک سے جانتے ہیں ان کیلئے میڈیا میں آنے والی باتوں پر یقین کرنا بے حد مشکل ہے ان کا کہنا تھا کہ ممبئی جانے سے پہلے وہ بھی عام بچوں کی طرح تھا وہ ایک بااخلاق اور مزاحیہ طبیعت کا شخص تھا ابوسالم کے ایک اور پڑوسی نے بتایا کہ ابو سالم اپنے چچا کی دکان پر کام شروع کرنے سے قبل چند برسوں کیلئے سکول جاتا رہا تاہم اس کے علاوہ اس نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی مقامی باشندوں کے مطابق ابو سالم جب سرائے میر میں تھا تو اس دوران وہ کبھی بھی کسی قسم کی سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا ابوسالم کے ایک اور پڑوسی کے مطابق ممبئی پہنچنے کے بعد جب وہ داؤد ابراہیم کے گینگ میں شوٹر بن گیا اور اس کا نام فلم ساز گلشن کمار کے قتل میں سامنے آیا تواس کے بعد سے ہی اس نے سرائے میر سے اپنے تمام تعلقات ختم کر دیے تھے ابوسالم کے ایک اور پڑوسی کے مطابق ممبئی پہنچنے کے بعد جب وہ داؤد ابراہیم کے گینگ میں شوٹر بن گیا اور اس کا نام فلم ساز گلشن کمار کے قتل میں سامنے آیا تواس کے بعد سے ہی اس نے سرائے میر سے اپنے تمام تعلقات ختم کر دیے تھے ۔سرائے میر ایک سکول ٹیچر کے مطابق ابوسالم کا آبائی ضلع اعظم گڑھ کسی زمانے میں کیفی اعظمی ، شبلی نعمانی اور ایودیا سنگھ اوپادھیائے جیسے ادیبوں کے نام سے جانا جاتا تھا مگر آج وہی اعظم گڑھ ممبئی ، دوبئی ، ملایشیاءاور سنگا پور کو مافیا ڈان اور شوٹر فراہم کر رہا ہے ۔پورے قصبے پر اگر نظر ڈالیں تو ہر دوسرا مکان آسمان کو چھو رہا تھا تقریبا ًہر دوسرے گھر کا ایک کوئی نہ کوئی فرد عرب ممالک یا جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک میں کام کر رہا ہے اور اس بات کا اندازہ اس چھوٹے سے قصبے میں ساٹھ سے زیادہ ٹیلی فون بوتھوں کی موجودگی سے لگایا جا سکتا ہے مقامی باشندوں کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت والے اس علاقے کو سبھی بھارتی حکومتوں نے نظر انداز کیا ہے ، اس لئے یہاں کے لوگ نوکریوں کی تلاش میں پہلے ممبئی کا رخ کرتے ہیں اور پھر وہاں سے عرب ممالک چلے جاتے ہیں ۔11نومبر 2005بروزجمعہ کو عدالت میں پیش کیا جانے ولا ابو سالم بھارتی انڈر ورلڈ کا سب سے خوفناک کردار ہے بھارتی پولیس نے ابو سالم عرف عبدلاسالم انصاری پر الزام لگایا ہے کہ وہ 1993کے ممبئی بم دھماکوں میں ملوث ہے جن میں 250سے زیادہ لوگ ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے ۔جبکہ تفتیشی اہلکاروں کو ابو سالم سے ساٹھ سے زیادہ قتل کی وارداتوں میں بھی پوچھ گیچھ کرنی ہے اس کے علاوہ اس پر بہت سے اغواءاور تاوان کے مقدمات بھی درج ہیں جن کے متاثرین میں بالی وڈ کچھ اداکار اور فلمساز بھی شامل ہیں۔ابوسالم 1993کے دھماکوں کے بعد اپنی ساتھی مونیکا بیدی کے ساتھ ملک سے فرار ہو گیا تھا یہ دونوں پرتگال چلے گئے اور اس کے دارا لحکومت لزبن میں بارہ سال تک تارکین وطن بھارتی لوگوں کے ساتھ رہے۔لیکن آخر کار ان کے اچھے دن بھی ختم ہوئے جب انہیں پرتگالی پولیس نے انٹرپول کی درخواست پر حراست میں لے لیا ۔اس وقت سے بھارت نے ان کو واپس بھارتی حکومت کے حوالے کرنے کیلئے دباؤ ڈالا ہوا تھا پرتگالی عدالت نے نومبر 2003میں ابوسالم کو جعلی کاغذات رکھنے کے جرم میں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی، جبکہ مونیکا بیدی کو دو سال کی سزا سنائی گئی پرتگالی حکومت نے بھارتی حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد انہیں سزائے موت نہیں دی جائیگی ان دونوں کو بھارت کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی بھارتی حکومت کے مطابق ابوسالم بھارت کے سب سے زیادہ مطلوب شخص داؤد ابراہیم کا قریبی ساتھی تھا داؤد ابراہیم بھی ممبئی دھماکوں میں مطلوب ہے ۔ خیال ہے کہ یہ دھماکے 1992میں گجرات کے فسادات کے جواب میں کیے گئے تھے جن میں سینکڑوں مسلمان ہلاک ہوئے تھے ، ان فسادات کا الزام ہندو شیو سینا پارٹی پر لگایا جاتا ہے بھارت کی ایجنسیوں کے مطابق داؤد ابراہیم اب پاکستان میں ہے اور وہاں سے سب کچھ کنٹرول کر رہا ہے ابوسالم شروع میں داؤد ابراہیم کا دوسرے یا تیسرے درجے کا سپاہی تھامگر بالی وڈ کے پروڈیوسر گلشن کمار کے سنسی خیز قتل کے بعد ابو سالم کا شمار بڑے نامی گرامی جرائم کرنے والوں میں ہونے لگا جبکہ چندہی ماہ بعد اس پرایک اور پروڈیوسر راجیو راج کو زخمی کرنے کا الزام بھی لگا اب بالی وڈ میں ابو سالم کی دھاک بیٹھ چکی تھی اورابو سالم ان دو واقعات کو اپنے شکار کو حراساں کرنے کیلئے استعمال کرنے لگا، اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے اس کی ممبئی کے ایک اور بدنام گینگ کے ساتھ مخالفت شروع ہو گئی جس کے سربراہ کا نام چھوٹا شکیل تھا چھوٹا شکیل بھی جرائم کی دنیا میں داؤد ابراہیم کے نائب کی حیثیت اختیار کر چکا تھا ۔ ابوسالم 1998میں داؤد کے گینگ سے علیحدہ ہو گیا ، 90ءکی دہائی کے آخری برسوں میں ابوسالم کا بالی وڈ میں اثرورسوخ بھارتی فلم انڈسٹری میں دیومالائی کہانی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے پولیس کے مطابق منیشا کوئرالہ کے سیکریٹری اجیت دیوانی کے قتل میں بھی ابوسالم کا ہاتھ تھا وہ پروڈیوسروں سے بھتہ لیتا تھا اور اس نے فلمیں بھی بنانا شروع کر دیں، اور وہاں پر ہی اس کی ملاقات مونیکا بیدی سے ہوئی اور دونوں نے ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا

پولیس کا خیال ہے کہ ابوسالم پروڈیوسروں پر دباؤ ڈالتا تھا کہ وہ مونیکا کو اس کی ناکام فلموں کے باوجود نئی فلموں میں کاسٹ کریں 

ابوسالم کے ملک سے فرار کے بعد بالی وڈ کے حالات بہت بدل گئے ہیں اب عام تاثر ہے کہ شہر کا مافیا اب فلمی صنعت پر اتنا اثر نہیں رکھتا جتنا پچھلی دو دہائیوں میں رکھتا تھا 11نومبر 2005بروزجمعہ کو دوپہر کے وقت ابوسالم کو بم دھماکوں کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے 23نومبر تک پولیس ریمانڈ میں دے دیا۔جبکہ ہفتے کے دن ان کی ساتھی مونیکا بیدی کو عدالت میں پیش کیا گیاجس نے اس کا ریمانڈ دیتے ہوئے اسکی درخواست ضمانت پر اسے دوبارہ پیش کرنے کو کہا ہے ممبئی میں ابوسالم کے خلاف کم از کم ساٹھ فوجداری مقدمات درج ہیں جس میں بم دھماکوں کے علاوہ فلم ساز گلشن کمار، مکیش دگل ، مونیشا کوئرالہ کے سیکریٹری اجیت دیوانی ، ٹھیکیدار پردیپ جین سمیت کئی افراد کے قتل ،ہفتہ وصولی اور جان سے مارنے کی دھمکی اور فرضی پاسپورٹ کےکیس ہیں ممبئی میں سی بی آئی کے دفتر کے باہر پولیس اور اسپیشل ٹاسک فورس کا زبردست پہرہ ہے وزیراعلیٰ کے دفتر منترالیہ کے سامنے واقع سی بی آئی کے دفتر میں ابوسالم سے ابھی تفتیش جاری ہے اور پولیس کمشنر اے این رائے کے مطابق ایسے کئی رازوں سے پردہ اٹھنے کے امکانات ہیں جس سے پولیس ابھی بھی ناواقف ہے ابوسالم پر الزام ہے کہ انہوں نے 1993کے سلسلہ وار بم دھماکوں میں اسلحہ سپلائی کیا تھا ، 12مارچ1993کو ہونے والے ان بم دھماکوں میں 257افراد ہلاک ہوئے تھے اور1000قریب لوگ زخمی ہوئے جبکہ27کروڑ سے زیادہ مالیت کا نقصان ہواتھا اوراس مقدمے میں 192ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل ہوئی جس کا اہم ملزم داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن کو بتایا گیا تھا 20ستمبر2002میں ابوسالم کو انٹر پول کی مدد سے پرتگال کے شہر لزبن میں ان کی ساتھی مونیکا بیدی کے ساتھ فرضی پاسپورٹ کے ذریعے شہر میں داخل ہونے کے جرم میں گرفتارکیا تھا ابو سالم کی گرفتاری کے بعد سے سی بی آئی نے پرتگال حکومت سے حوالگی کا مطالبہ شروع کیا تھالیکن اس میں اسے کامیابی فروری2004میں ہوئی جب عدالت نے سی بی آئی کو اپنا کیس پیش کرنے کیلئے کہا اور دستاویزات کی جانچ کے بعد عدالت نے اس شرط پر دونوں ملزمان کو بھارت کے حوالے کیا کہ وہ انہیں پھانسی کی سزا نہیں دے سکتے اور نہ ہی انہیں25سال سے زیادہ قید میں رکھ سکتے ہیں واضع رہے کہ یورپی ممالک میں موت کی سزا پر پابندی ہے پولیس کے مطابق گلشن کمار کا قتل ابو سالم نے داؤد ابراہیم سے پوچھے بغیر کیا تھا جس پر داؤد ابراہیم نے اسے اپنے گینگ سے باہر نکال دیا اس کے بعد ابوسالم نے اپنا اڈا بنالیا اس کے بعد سے فلمی دنیا پر اس نے اپنا شکنجہ کسنا شروع کر دیا ابوسالم کے بارے میں سی بی آئی اور ممبئی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ بھیس بدلنے میں ماہر ہے انکے پاس8سے زائد فرضی پاسپورٹ ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے تھے فلم ساز مکیش دگل پروگرام کرنے کیلئے اپنے ساتھ مونیکا بیدی کو دوبئی لے گئے اور اطلاعات کے مطابق اسی دوران ابوسالم اور مونیکا میں پیار ہو گیا ابوسالم نے اس لئے کئی فلم سازوں کو مبینہ طور پر دھمکا کر مونیکا کو فلموں میں کام دلانا شروع کیا پولیس ریکارڈ کے مطابق بعد میں ابوسالم نے کسی وجہ سے مکیش کا قتل کروایا ممبئی پولیس کمشنر اے این رائے نے ابوسالم کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی بتلایا پولیس ریکارڈ کے مطابق بعد میں ابوسالم نے کسی وجہ سے مکیش کا قتل کروایا ممبئی پولیس کمشنر اے این رائے نے ابوسالم کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی بتلایااور کہا کہ اسکے خلاف جو مقدمات درج ہیں ان میں سے کئی مقدمات میں اسے پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے لیکن پرتگال حکومت کوکیے گئےوعدے کی وجہ سے عدالت اس پر شاید عمل نہ کر سکے پولیس کمشنر کے مطابق ابوسالم سے تفتیش کے دوران کئی رازوں سےپردہ اٹھ سکتاہے۔داؤد ابراہیم کے کام کرنے کے انداز، اس کے خفیہ اڈوں اور اس کے ساتھ بالی وڈ اور انڈرورلڈ کے تعلقات بھی بے نقاب ہو گے۔ پرتگال میں محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھارت میں سب سے زیادہ مطلوب شخص ابوسلیم انصاری عرف ابوسالم کو انڈین حکام کے حوالے کر دیا ہے۔ ابو سالم انڈیا کے شہر ممبئی میں بم دھماکوں میں مطلوب ہے جبکہ ابوسالم نے ان دھماکوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے ۔پرتگال میں حکام کے مطابق ابوسالم کو ان کی ساتھی فلم ایکٹرس مونیکا بیدی کے ہمراہ انڈین حکام کے حوالے کیا گیا ابوسالم کو پرتگال میں 2002میں جعلی دستاویزات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور پچھلے دو برس سے اپنے آپ کو انڈیا کے حکام کے حوالے کیے جانے کے خلاف مقدمہ لڑ رہا تھا ۔اگرچہ انڈیا اور پرتگال کے درمیان مجرموں کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے لیکن انڈیا نے پرتگال کے حکام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ابوسالم اور مونیکا بیدی کو انڈیا میں سزائے موت نہیں دیجائے گی جو یورپی قوانین کے خلاف ہے بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں پولیس نے ایک پولیس آفیسر اور دوسول اہلکاروں کو ابوسالم اور ان کی دو خاتون ساتھیوں کو فرضی پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات بنوا کر دینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ان اہلکاروں سےجنہوں نے ابوسالم کو فرضی نام اور پتوں سے پاسپورٹ جاری کیا ان سے بھی پوچھ گیچھ کی جارہی ہے ۔پرتگال میں بھارت کے سفیر مدھو بہادری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ پرتگال کی عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ ابوسالم کو تین ماہ کیلئے حراست میں رکھا جائے گا اس درمیان بھارتی حکومت کا بھارت لانے کے بارے میں قدم اٹھا سکتی ہے انہوں نے کہا کہ ابھی تو شروعات ہوئی ہے ابوسالم کو دس سال بعد گرفتار کیا ہے اور ہم نے یہ کہا ہے کہ انہیں کچھ دیر احتیاطی حراست میں رکھا جائے تاکہ ہمیں وقت ملے کہ ہم پوری قانونی کاروائی کر کے ابوسالم کو بھارت لے جاسکیں۔اس سے قبل ابوسالم کو دو مرتبہ دوسرے ملکوں میں گرفتار کیا جا چکا ہے پہلی مرتبہ 1997میں اور دوسری بارگذشتہ سال اکتوبر میں لیکن دونوں ہی باروہ بھارتی حکام کی گرفت سے بچنے میں کامیاب رہا سی بی آئی نے13نومبر کو دعویٰ کیا ہے کہ پرتگال سے حوالگی معاہدے کے تحت بھارت لائے گئے انڈرورلڈ ڈان ابوسالم نے تفتیش کے دوران اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ 1993کے سلسلہ وار دھماکوں میں انہوں نے اسلحہ اور بارود فراہم کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تفتیشی ایجنسی نے ابوسالم کی سائنسی جانچ کو بھی خارج از امکان نہین قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ابوسالم کے وکیل نے اس طرح کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے ہی ایک عرضی داخل کر رکھی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ابوسالم کسی بھی معاملے میں اعتراف جرم نہیں کرنا چاہتے اس لئے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیں تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا موکل پولیس تفتیش میں پوری طرح سے تعاون کرے گا۔ابوسالم سے تفتیش کرنے والے اہلکاروں نے بتایا کہ تفتیش کے دوران ڈان بہتر طریقے سے تعاون کر رہے ہیں ابوسالم کی سائنسی ٹیسٹ جیسے پولی گراف اور برین میپنگ وغیرہ کے معاملے میں سی بی آئی نے کہا کہ اس طرح کے ٹیسٹ خارج از امکان نہیں ہیں اس کے ساتھ ہی ایجنسی نے وضاحت کی کہ ابھی اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ ایک سینئر سی بی آئی افسر نے کہا کہ ہم اس امکان کو خارج نہیں کرتے لیکن ہمارے پاس پہلے سے ہی اس کے خلاف خاطر خواہ ثبوت موجود ہیں ان ثبوتوں کی بنیاد پر ہی ہم اسے پرتگال سے بھارت لانے میں کامیاب ہوئے ہیں سی بی آئی افسر کا کہنا ہے کہ حالانکہ ہمیں ایک سخت ترین جرائم پیشہ شخص کا سامنا ہے لیکن پوچھ تاچھ اور 1993کے سلسلہ وار بم دھماکوں کی تفتیش میں وہ مکمل طور پر تعاون کر رہا ہے ایک افسر نے بتایا کہ ہماری تفتیش کی دوران پوری توجہ 1993کے بم دھماکوں پر ہے تاہم افسر نے اب تک کی تفتیش کی تفصیل بتانے سے انکار کردیا اس اہلکار نے میڈیا میں پھیلی ان خبروں پر بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جس کے مطابق ابوسالم نے تفتیش کے دوران بالی وڈ اور سیاست سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کے نام لیے ہیں سی بی آئی افسر نے بتایا کہ گذشتہ دو روز کی تفتیش کے دوران ابوسالم سے داﺅد ابراہیم کے ٹھکانے سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا انھوں نے کہا کہ بہر حال ہر شخص جانتا ہے کہ وہ داؤد ابراہیم کہاں ہے اس لئے ابوسالم سے اس سلسلے میں پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس دوران ٹاڈا عدالت اور قانونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابوسالم کو بھارت لائے جانے کے بعد اس پر ناڈا قانون کے تحت علیحدہ مقدمہ چلایا جائے گا اور 12مارچ1993کو جو دھماکے ہوئے تھے ان سے متعلق چلائے جانے والے مقدمے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ذرائع کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ مصطفےٰ مجنوں کی طرح سالم کے خلاف بھی علیحدہ مقدمہ چلایا جائے گا ۔ واضع رہے کہ مصطفےٰ مجنوں کو کچھ عرصہ قبل ہی دوبئی سے لایا گیا تھا اس بات کا بھی امکان ہے کہ ناڈا عدالت کے جج پی ڈی کوڈ اگلے سال کے شروع میں اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیں ۔مقدمہ شروع ہونے سے سی بی آئی کو جو ان دھماکوں کی تحقیقات کر رہی ہے کو 80دن میں فرد جرم عائد کرنی ہو گی ۔مقدمے کی کاروائی کو آگے بڑھانے کیلئے ابوسالم کا اعتراف گناہ سے متعلق بیان بھی ریکارڈ کرنا ہوگا۔فوجداری معاملات کے سرکردہ وکیل ستیش مینشنڈے کا کہنا ہے کہابو سالم کی گرفتاری سے ممبئی کے دھماکوں سے متعلق چلائے جانے والے مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس مقدمے میںفلمی اداکارہ سنجے دت کے علاوہ 123دیگر افراد کے خلاف ممبئی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت جاری ہے جس کا جلد ہی فیصلہ ہونے والا ہے علاوہ ازیں فلمی اداکار سنجے دت کے خلاف مقدمے کے سلسلے میں بھی عدالت کو اس سے پوچھ گچھ کرنی ہے

کہا جاتا ہے کہ سالم نے سنجے دت اور تین دوسرے مجرموں کو ہتھیار مہیا کئے تھے.ٹاڈا کی عدالت میں ابو سالم کو حراست میں لینے کی عرضی داخل کرتےہوئے سی بی آئی نے کہا کہ اس مقدمے کے ایک اور ملزم بابا موسیٰ چوہان نے اپنے بیان میں اعتراف کیا ہے کہ ابوسالم نے دھماکے کرنے والے ملزموں کو ہتھیار سپلائی کئے تھے.کہا جاتا ہے کہ ابو سالم کی زندگی اگرچہ جرائم کی دنیا میں گزری اور اس نے متعدد سنگین نوعیت کی وارداتیں کیں اور کروائی مگرانکے خلاف الزامات میں شدت صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے .اگر ابوسالم کو بھارتی حکومت ہندوستان سے گرفتار کرتی تو اب تک انہیں یا تو پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا یا اب تک انہیں سزائے موت ہو جاتی مگر پرتگال سے پکڑے جانے پر ابوسالم کو یہ اطمینان حاصل ہے کہ اگرچہ ان کی زندگی تو شاید اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزرے مگر وہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر نہیں جھولیں گے