غلام اسحاق خان

وکیپیڈیا سے

پیدائش: 22فروری 1915ء

انتقال: 27 اکتوبر 2006ء بروز جمعہ

غلام اسحاق خان
Enlarge
غلام اسحاق خان

پاکستانی کے اہم سرکاری افسر اور سابق صدر۔ ضلع بنوں کے ایک گاؤں اسماعیل خیل میں ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے پشاور سے کیمسٹری اور باٹنی کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی۔انیس سو چالیس میں انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔


فہرست

[ترمیم کریں] ملازمت

صوبہ سرحد میں وزیر اعلی کے سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری جیسے کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے۔1955 میں جب ون یونٹ کے تحت مغربی اور مشرقی پاکستان کے نام سے دو صوبے بنائے گئے تو غلام اسحاق خان مغربی پاکستان کے سکریٹری آبپاشی مقرّر ہوئے۔ اس حیثیت میں پاکستان بھارت دریائی پانی کی تقسیم کے معاملات میں وہ سرکاری معاونت کرتے رہے۔ 196ٍ1 میں پانی و بجلی کے وسائل کی ترقی اور نگرانی کے ادارے واپڈا کے سربراہ بنے اور 1965 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد پانچ برس سے زائد عرصے تک سیکرٹری خزانہ رہے۔

بطور سکریٹری خزانہ بھی وہ اتنے بااثر تھے کہ بیس 20 دسمبر 1971 کی جس تصویر میں شکست خوردہ یحیٰ خان ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کررہے ہیں اس تصویر میں تیسرے آدمی غلام اسحاق خان ہیں جو اقتدار کی منتقلی کی دستاویز پر دستخط کروا رہے ہیں۔ بھٹو حکومت کی تشکیل کے بعد غلام اسحاق خان انیس سو پچہتر تک گورنر اسٹیٹ بینک کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔

اس کے بعد غلام اسحاق خان کو سکریٹری جنرل دفاع کا قلمدان دے دیا گیا۔اس حیثیت میں وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بھی نگراں رہےاور ان کے فوج کی اعلیٰ قیادت سے بھی براہ راست تعلقات استوار ہوئے۔1977 میں جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو غلام اسحاق خان پہلے مشیرِ خزانہ اور پھر وزیرِ خزانہ بنائے گئے اور انہوں نے معیشت کو اسلامی طرز پر ڈھالنے کے جنرل ضیا کے ایجنڈے میں معاونت کی۔ ملک کے لیئے خدمات کے پیش نظر انہیں ستارہ پاکستان اور ہلال پاکستان کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

[ترمیم کریں] سیاسی زندگی

Enlarge

۔۔1984 کے اواخر میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بحالی جمہوریت کا محدود اور محتاط عمل شروع ہوا تو غلام اسحاق خان کو سینیٹ کا چیئرمین بنایا گیا جو آئینی اعتبار سے صدر کا جانشین عہدہ ہے۔چنانچہ جب 17اگست 1988 کو غلام اسحاق خان نے بحیثیت قائم مقام صدر مملکت باضابطہ طور پر تصدیق کی کہ صدر ضیا الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹ گیا ہے تو اس وقت پورے ملک میں یہ انتظار ہو رہا تھا کہ فوج کب اقتدار سنبھالتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ جنرل ضیا الحق کے غیر جماعتی فارمولے کو طاق پر رکھ دیا گیا اور تین ماہ بعد جماعتی بنیاد پر عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔

لیکن اس عرصے میں پیپلز پارٹی کی طاقت کو بیلنس کرنے کے لیے غلام اسحاق خان کی آنکھوں کے سامنے آئی ایس آئی کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد کی شکل میں ایک قوت بھی کھڑی کردی گئی۔ بہرحال پیپلز پارٹی کو مشروط طور پر اقتدار منتقل کیا گیا۔اور ڈیل کے تحت غلام اسحاق خان پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کی مشترکہ حمایت سے دسمبر1988میں نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں پاکستان کے ساتویں صدر منتخب ہو گئے۔

صدر غلام اسحاق خان کو آٹھویں آئینی ترمیم کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت منتخب پارلیمان اور حکومت کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے جج اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا اختیار بھی حاصل تھا۔ لیکن ان کی نہ تو بے نظیر بھٹو سے اور نہ ہی بعد میں نواز شریف حکومت سے نبھ سکی۔اور اگست انیس سو نوّے میں بے نظیر حکومت اور اپریل انیس سو ترانوے میں نواز شریف حکومت اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئیں۔

سپریم کورٹ نے 1988 میں اس صدارتی اختیار کے تحت صدر ضیا الحق کے ہاتھوں جونیجو حکومت اور پھر 1990 میں غلام اسحاق خان کے ہاتھوں بے نظیر حکومت کی پہلی برطرفی کو تو غیر آئینی قرار نہیں دیا البتہ نواز شریف حکومت کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مئی1993میں اس کی بحالی کا حکم جاری کردیا۔اس کے نتیجے میں وفاقی ڈھانچہ ڈیڈلاک کا شکار ہوگیا۔چنانچہ بری فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کے دباؤ پر نو بحال وزیرِ اعظم نواز شریف اور جہاندیدہ صدر غلام اسحاق خان کو گھر جانا پڑا۔


[ترمیم کریں] شخصیت

جوانی کی تصویر
Enlarge
جوانی کی تصویر

غلام اسحاق خان نے تمام عمر بطور ایک بیوروکریٹ کے گزاری اور ان کے رفقاء کے بقول آخری دم تک کے افسر کے طور پر رہے۔ ان سے بیوروکریسی کے طور طریقے شاید ہی کوئی اور بہتر انداز میں جانتا ہو۔وہ انتہائی محنتی اور سیلف میڈ انسان تھے۔ ان کے بارے میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا لیکن ان کے دو داماد انور سیف اللہ اور عرفان اللہ مروت سیاست میں تھے اور ان کے معاملے میں وہ کچھ سیاسی بن گئے۔ سیف اللہ خاندان کی سیاست کو انہوں نے آگے بڑھایا اور عرفان اللہ مروت جو سندھ کی سیاست میں تھے اور جن پر سنگین الزامات لگے، انہوں نے ان کو بچانے کی کوشش کی۔


[ترمیم کریں] خدمات

صوبہ سرحد میں ان کا نام غلام اسحاق خان انسٹییوٹ آف انجنیئرئنگ اینڈ ٹیکنالوجی جیسے اعلی تعلیمی ادارے کے ٹوپی کے مقام پر قیام کی وجہ سے زندہ رہے گا۔ اس کے علاوہ بھٹو دور میں ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے میں بھی ان کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔


[ترمیم کریں] بنوں اور غلام اسحاق

حیرانگی کی بات ہے کہ تقریبا کئی عشروں تک اعلی سرکاری عہدوں اور سیاسی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود غلام اسحاق خان بنوں جیسے پسماندہ علاقے کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے۔ بلکہ ان کے ہی دور صدارت میں انڈس ہائی وے کا نقشہ بدل دیا گیا جس سے ضلع بنوں کو کئی سو سال پیچھے تاریکی میں دھکیل دیا گیا۔ان کی موت سے ملکی تاریخ پر اثر ضرور پڑے گا لیکن ان کی موت پر ضلع بنوں اور یہاں کے عوام میں کسی قسم کی کوئی گہما گہمی دیکھنے میں نظر نہیں آئی۔ ان کے اپنے رشتے داروں کا تو یہ کہنا تھا کہ غلام اسحاق سے ان کو کوئی رشتہ نہیں وہ اس علاقے میں پیدا ہی نہیں ہوئے۔

سانحہ تھا گزر گیا ہوگا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو

[ترمیم کریں] انتقال

غلام اسحاق خان جبری ریٹائرمنٹ کے بعد پشاور میں ایسے گوشہ نشین ہوئے کہ نہ تو انہوں نے اپنی سوانح حیات لکھی اور نہ ہی کبھی کوئی انٹرویو دیا۔حالانکہ اگر وہ چاہتے تو سن انیس سو پچپن سے لے کر تا مرگ پاکستان کی تمام اہم محلاتی جوڑ توڑ کو تاریخ کی عدالت میں سلطانی گواہ کے طور پر بہت اچھے طریقے سے بے نقاب کرسکتے تھے۔ ۔ اکتوبر 2006 میں نمونیا کے حملے سے ان کا انتقال ہوا۔ پشاور میں ان کو دفن کیا گیا۔

دیگر زبانیں