پھیرے

وکیپیڈیا سے

علاو الدین
Enlarge
علاو الدین

پھیرے اداکار ہدایت کار اور فلم ساز نذیر جنھوں نے اپنےکیرئر کا آغاز خاموش فلموں کے دور میں لاہور ہی سے کیا تھا لیکن بعد میں بمبئی منتقل ہو گئے تھے کی بنائی گئی فلم تھی۔۔ تقسیم کے بعد جب نذیر پھر سے لاہور آگئے تو اُن کی تجربہ کار نگاہوں نے بھانپ لیا کہ اگر صرف پاکستان کی مارکیٹ کو مدِ نظر رکھ کر فلم بنائی جائے تو کاروباری سطح پر یہ محض نقصان کاسودا ہوگا چنانچہ انھوں نے ہندوستان کی کمرشل ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا اور ایک ایسی کہانی منتحب کی جو ہندو کرداروں کے گرد گھومتی تھی۔

فلم پھیرے کی کہانی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی بلکہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ وہ ایک بالکل فارمولا کہانی تھی لیکن کم از کم کمرشل ضروریات پر پوری اُترتی تھی۔

نذیر گاؤں کا ایک غریب لیکن منچلا نوجوان ہے اور اپنے دوست نذر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہے مگر گاؤں کے میلے میں جب مینڈھوں کی لڑائی ہوتی ہے تو اسکا مینڈھا چوہدری کے مینڈھے کو شکست دے دیتا ہے اور چوہدری اس ہتک کا بدلہ لینے کے لئے نذیر کو گاؤں بدر کروا دیتا ہے۔


کہانی کا یہ ابتدائی حصّہ غالباً کرداروں کے تعارف اور کامیڈی مناظر کی کھپت کے لئے تیار کیا گیا ہے کیونکہ اصل کہانی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب نذیر اور اُسکا دوست ایک نئے گاؤں میں رہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ وہاں کے چوہدری کا بیٹا علاؤالدین ہے اور بیٹی سورن لتاہے جس کی مصاحبت میں ایک کزن ٹائپ کی لڑکی ہمہ وقت موجود رہتی ہے تاکہ جب نذیر کی محبت سورن لتا سے شروع ہو تو نذیر کے دوست ( نذر) کو بھی محبت کے لیے ایک لڑکی میسّر ہو اور یوں فلم میں دو جوڑوں کی کہانی کو ساتھ ساتھ چلایا جا سکے۔

اس کے بعد ہیروئن کا بھائی علاؤالدین اپنی بہن کی نگرانی شروع کر دیتا ہے اور اسے نذیر سے ملنے نہیں دیتا۔ وِلن کی کمینگی میں اضافے کے لئے یہ بھی دکھایا ہے کہ وہ ہمسایہ گاؤں کے ایک بڑے زمیندار سے (ایم اسماعیل) سے پیسے اُدھار لیتا ہے اور پھر احسان کا بدلہ چُکانے کے لئے بہن کی شادی اسی زمیندار سے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، چونکہ لڑکی جوان ہے اور زمیندار اسے ایک میلے میں دیکھ کر اس پر فریفتہ بھی ہو چکا ہے اس لئے پھیروں کی تیاری شروع ہو جاتی ہے لیکن عین پھیروں کے دِن ہیروئن کی جگہ اسکی سہیلی، کزن یا منہ بولی بہن ، جو کچھ بھی وہ ہے ( اداکارہ زینت) اسےگھونگھٹ میں بٹھا کر زمیندار کے ساتھ اسکے پھیرے کر دیے جاتے ہیں۔

بہر حال پھیرے ہونے کے بعد جب گھونگھٹ میں لپٹی غلط لڑکی زمیندار کے گھر پہنچتی ہے تو خود ہیروئن بھی بہن کے طور پر اسکے ساتھ جاتی ہے ۔۔ جیسا کہ رواج ہے۔

سسرال پہنچ کر اگرچہ دونوں لڑکیاں اپنے اپنے اصل کردار میں واپس آجاتی ہیں لیکن ہیروئن گھونگھٹ میں لپٹی ہر وقت کھانستی رہتی ہے گویا ازل سے بیمار ہو۔

اس طرح آخر کار زمیندار کی انسانیت جاگ اُٹھتی ہے اور وہ دونوں پیار کرنے والوں کو آپس میں ملوا دیتا ہے۔۔ بلکہ اُن کے پھیرے کروا دیتا ہے۔

تو جیسا کہ آپ نے دیکھا، کہانی میں کچھ بھی نیا نہیں تھا لیکن اداکار نذیر کا جذبہ ضرور نیا تھا اور فلم سازی کی اُمنگ بھی جوان تھی۔

فلم کے تمام گانے ہِٹ ہوئے اور خود فلم تو سُپر ہٹ ہوئی۔۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی جہاں اسکے تقسیم کار سورن لتا کے بھائی تھے۔

اگر آپ فلم کے ٹائٹل پڑھیں تو فلم ساز کے خانے میں آپکو ایک خاتون کا غیر مانوس سا نام نظر آئے گا: سعیدہ بانو۔ اصل میں یہ سورن لتا کا اسلامی نام ہے کیونکہ انھوں نے نذیر سے شادی کر لی تھی