ابو سالم
وکیپیڈیا سے
بھارت کے سب سے زیادہ مطلوب شخص داؤد ابراہیم کا قریبی ساتھی ۔ ممبئ بم دھماکوں کا مجرم اور انڈر ورلڈ کا کا دادا۔تعلق اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے ہے۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کیا۔80ء کی دھائی کے وسط میں ابو سالم ممبئی آیا اور ایک ٹیلیفون بوتھ چلانے کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے جرائم کرنے لگا۔ پھر اس کے تعلقات میں اضافہ ہوا اور وہ داؤد کے چھوٹے بھائی انیس سے ملنے جلنے لگا۔ جلد ہی ابو سالم داؤد ابراہیم کے گینگ میں شامل ہوگیااور اس کے لیے بندوق اٹھا لی۔
ابو سالم کی ذمہ داری گینگ کےنشانہ بازوں کے لیے شہر میں مختلف مقامات پر اسلحے کی ترسیل تھی۔جلد ہی اس نے اپنے باس کے لیے کاروباری لوگوں اور بالی وڈ کی شخصیات سے بھتہ وصول کرنا بھی شروع کر دیا۔ لیکن 90ء کی دھائی کے وسط تک وہ دوسرے یا تیسرے درجے کا سپاہی تھا۔ 1997 میں بالی وڈ کے پروڈیوسر گلشن کمار کے سنسنی خیز قتل کے بعد ابو سالم کا شمار بڑے غنڈوں میں ہونے لگا۔ چند ماہ بعد اس پر ایک اور پروڈیوسر راجیو راج کو زخمی کرنے کا الزام بھی لگا۔اب بالی وڈ میں سالم کی دھاک بیٹھ چکی تھی، اور سالم ان دو واقعات کو اپنے شکار کو حراساں کرنے کے لیے استعمال کرنے لگا۔ بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کی ایک اور بدنام گینگ کے ساتھ مخالفت شروع ہو گئی، جس کے سربراہ کا نام چھوٹا شکیل تھا۔
چھوٹا شکیل بھی جرائم کی دنیا میں داؤد ابداہیم کے نائب کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ ابو سالم 1998 میں داؤد کے گینگ سے علیحدہ ہو گیا۔ 90ء کی دھائی کے آخری سالوں میں ابو سالم کا بالی وڈ میں اثرورسوخ بھارتی فلم انڈسٹری میں دیومالائی کہانی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔پولیس کے مطابق منیشا کوئرالہ کے سیکریٹری اجیت دیوانی کے قتل میں بھی ابو سالم کا ہاتھ تھا۔ وہ پروڈیوسروں سے بھتہ لیتا تھا اور اس نے فلمیں بھی بنانا شروع کر دیں۔ وہیں اس کی ملاقات مونیکا بیدی سے ہوئی جو کہ ایک معمولی ماڈل گرل تھی۔ یوں دونوں نے ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا۔
سالم 1993 کے دھماکوں کے بعد اپنی ساتھی مونیکا بیدی کے ساتھ ملک سے فرار ہو گیا ۔ یہ دونوں پرتگال چلے گئے اور اس کے دارالحکومت لزبن میں بارہ سال تک تارکینِ وطن بھارتی لوگوں کے ساتھ رہے۔
لیکن آخر کار ان کے اچھے دن ختم ہوئے جب انہیں پرتگالی پولیس نے انٹرپول کی درخواست پر حراست میں لے لیا۔ پرتگالی حکومت نے بھارتی حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد کہ انہیں سزائے موت نہیں دی جائے گی، ان کو بھارت کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاھر کی۔اس طرح سالم کو بھارت لایا گیا۔