کیا مردے سن سکتے ہیں؟ اسلام نقطہ نظر سے (حصہ دوم)
وکیپیڈیا سے
[ترمیم کریں] باب 3: اہلحدیث حضراتکے دلائل اور انکا تجزیہ
سلفی حضرات سورہ فاطر کی آیت ۲۲، اور سورہ نمل آیت ۸۰ کو نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مردے نہیں سن سکتے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ آیات اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ مردے نہیں سن سکتے، یا پھر یہ کہ یہ اہلحدیث حضرات پ ھر اپنی ظاہر پرستی کی وجہ سے اس کا اصل مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ
(القران ۳۵:۸۰) اور زندہ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے(یہ صرف) اللہ (ہے جو) جس کو چاہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے (یعنی ہدایت دے دیتا ہے) اور آپ انہیں نہیں سناسکتے (یعنی ہدایت نہیں کر سکتے) جو قبروں کے اندر رہنے والے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں "سننا" مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد صرف اور صرف "بات کا ماننا" ہے۔ اسی طرح اوپر کی آیت میں "سننے" کا یہ لفظ اپنے اِس "بات یا ہدایت نہ ماننے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مگر چونکہ اہلحدیث حضرات کا عقیدہ ہے کہ پورا قران اپنے ظاہری معنوں میں نازل ہوا ہے، اسی لیے وہ اس آیت کو بھی ظاہری معنوں میں لیتے ہیں۔
اگر آپ اس آیت سے قبل اور اس آیت کے بعد آنے والی آیات پر ایک نظر ڈالیں گے تو یہ بات آپ پر اور واضح ہو جائے گی کہ اللہ اس "سننے" کے لفظ کو کن معنوں میں استعمال کر رہا ہے۔ اللہ اپنے حبیب ﷺ کو اگلی آیت نمبر ۲۳ میں کہہ رہا ہے کہ:
إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ آپ تو صرف ڈرانے والے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
اور ساتھ میں رسولﷺ کو یہ بھی کہہ رہا ہے کہ یہ آپ ﷺ کا فرض نہیں ہے کہ لوگوں سے حق بات کو منوائیں بھی، کیونکہ یہ صرف اور صرف اللہ ہے جو ہر اُس شخص کو ہدایت دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے۔
دیکھئیے کہ اللہ اسی آیت کے شروع میں کیا کہہ رہا ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء
(یہ) اللہ ہی ہے جو جسے چاہے سنوا دیتا ہے
آیت کے اس حصے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو ان لوگوں کو ہدایت سننے (ماننے) کی توفیق دیتا ہے جس سے وہ خوش ہوتا ہے۔
ذرا تصور کریں، آپ کسی بھی کافر کے پاس جا کر بولنا شروع کر دیں، تو کیا وہ آپ کی آواز نہیں سنے گا؟ اور اگر وہ کافر آپ کی آواز سن سکتا ہے، تو پھر اللہ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہوا کہ:
(یہ) اللہ ہی ہے جو جسے چاہے سنوا دیتا ہے
اگر اہلحدیث حضرات کا یہ دعویٰ درست ہے کہ "سننا" یہاں پر اپنے ظاہری معنوں میں استعمال ہوا ہے تو پھر اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ معاذ اللہ قران میں تضاد ہے اور معاذ اللہ خدا جھوٹ بول رہا ہے۔ یعنی ایک طرف تو اللہ دعویٰ کر رہا ہے کہ صرف وہی سن سکتا ہے کہ جسے اللہ چاہے، اور دوسری طرف آپ ہیں جو جا کر ہر اُس کافر کو اپنی آواز سنا رہے ہیں کہ جسے آپ چاہیں۔ اس آیت کا مطلب بالکل صاف ہے۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ صرف ان لوگوں کے پاس ہدایت سننے (ماننے) یا پھر رد کرنے کا حق ہے جو کہ زندہ ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو مر چکے ہیں، ان کے پاس اب ہدایت سننے (ماننے) یا رد کرنے کا کوئی حق نہیں رہا ہے کیونکہ ان کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے اور انکا ہدایت کو سننا (ماننا) ان کے لیے کسی فائدے کا نہیں رہا ہے۔ (یعنی موت کے فرشتے کو دیکھ لینے کے بعد اللہ پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے)۔
اور اللہ یہی بات اپنے حبیب ﷺ کو بتا رہا ہے کہ ان کفار کی مثال بھی اُن مردہ لوگوں جیسی ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے کفر میں اس درجہ آگے بڑھ گئے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان سے یہ حق چھین لیا ہے کہ وہ ہدایت کو قبول کر سکیں۔ (یعنی جس طرح مردوں سے یہ حق چھین لیا گیا ہے، اسی طرح ان سے بھی یہ ہدایت ماننے کا حق چھین لیا گیا ہے)۔
اس لیے اللہ اپنے حبیب ﷺ سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس بات پر افسردہ نہ ہوا کریں اگر کوئی کافر ان کی بات اور ہدایت نہ سنے (مانے)۔ اسکی واحد وجہ یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر قفل لگا دیا ہے اور یہ حق ہی چھین لیا ہے جیسا کہ مردوں سے یہ حق چھین لیا ہے۔ اور یہ صرف اللہ ہی ہے جو جسے چاہے ہدایت دے اور دلوں پر پڑے قفل کو کھول دے۔ اللہ قران میں فرما رہا ہے:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(القران ۲۸:۵۶) پیغمبر بیشک آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ان لوگوں سے خوب باخبر ہے جو ہدایت پانے والے ہیں
اور یہی حقیقت اللہ نے اور بہت سے جگہ قران میں واضح فرمائی ہے:
وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
(القران ۳۰:۵۳) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں
یہ آیت بہت اہم ہے۔
۱) دیکھئیے کہ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ:
اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں اگر ہم اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی روش پر چلیں تو ہمیں یہ اعلان کرنا ہو گا کہ تمام کے تمام اندھے لوگ کبھی حق بات کو نہیں مان سکتے اور وہ ہمیشہ گمراہی میں پڑے رہیں گے۔
۲) اور اسی آیت کے دوسرے حصے میں اللہ نے خود "سننے" (تسمع) کا لفظ واضح طور پر استعمال کر کے اس کے مجازی معنوں کو ظاہر کر دیا ہے:
إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں اگر کوئی اب بھی اس بات کا انکار کرتا ہے کہ قران میں کوئی مجاز نہیں ہے، بلکہ یہ پورا کا پورا ظاہر ہے تو یقیناً ایسا شخص غلطی پر ہے۔
اور اس "سننے" کا مجازی معنی اس اگلی آیت میں اللہ نے اور اتنا واضح کر دیا ہے جب وہ کہہ رہا ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم رات اور دن کو آرام کرتے ہو اور پھر فضل خدا کو تلاش کرتے ہو کہ اس میں بھی سننے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں
لفظ "سننے" کا یہ مجازی استعمال دینا کی تقریباً تمام زبانوں میں پایا جاتا ہے۔
مثلاً جب میرا چھوٹا بھائی میری والدہ کی بات نہیں مانتا تو وہ والد صاحب سے ان الفاظ میں شکایت کرتی ہیں: "اب آپ ہی اسے کہیں کہ یہ کام نہ کرے کیونکہ میری بات تو یہ سنتا نہیں ہے (یعنی میری بات تو یہ مانتا نہیں ہے)۔ اسی طرح دوسری زبانوں میں بھی اسکا یہ مجازی استعمال عام ہے۔ مثلاً:
1.In English: Please you (my father) tell him (my younger brother) to do so and so. He does not Hear/listen to me. 2.In German: Bitte sag du es mal zu ihm um das und das zu tun. Er HÖRT auf mich nicht. 3.In Pashtu: Tasu aghey ta owaey che zama khabara de wouri 4.In Russian: ... on "Slushet" mene neith...
اور اسی طرح بہت سی اور زبانوں میں سننا اِس بات نہ ماننے کے مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اہلحدیث کے امام ابن کثیر الدمشقی کی سورہ فاطر کی اس آیت ۳۵:۲۲ کی تفسیر
اہلحدیث کے تمام کے تمام سلف علماء اس بات کے قائل تھے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ تفسیر کے میدان میں اہلحدیث حضرات کے سب سے بڑے امام، ابن کثیر الدمشقی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیںَ:
وَقَوْله تَعَالَى : " إِنَّ اللَّه يُسْمِعُ مَنْ يَشَاء " أَيْ يَهْدِيهِمْ إِلَى سَمَاع الْحُجَّة وَقَبُولهَا وَالِانْقِيَاد لَهَا " وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُور " أَيْ كَمَا لَا يَنْتَفِع الْأَمْوَات بَعْد مَوْتهمْ وَصَيْرُورَتهمْ إِلَى قُبُورهمْ وَهُمْ كُفَّار بِالْهِدَايَةِ وَالدَّعْوَة إِلَيْهَا كَذَلِكَ هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكُونَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمْ الشَّقَاوَة لَا حِيلَة لَك فِيهِمْ وَلَا تَسْتَطِيع هِدَايَتهمْ .
ترجمہ:
اور اللہ کا یہ فرمانا (اللہ جسے چاہتا ہے سنوا دیتا ہے) اسکا مطلب ہے کہ وہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ حجت (ہدایت) کو سنیں اور اسے قبول کریں اور اس پر قائم رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ (اور تم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں) اسکا مطلب ہے کہ جیسے کہ مردے مرنے کے بعد ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں اور انہیں سچ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کفر کی حالت میں مرے ہیں اور اسی حالت میں قبر میں چلے گئے ہیں، اسی طرح آپ کی ہدایت اور دعوت ان کفار کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ ان کی شقاوت کی وجہ سے ان کی قسمت میں برباد ہونا لکھا گیا ہے اور آپ ان کو ہدایت نہیں کر سکتے۔
اسی طرح اہلحدیث کے سلف علماء کی دیگر مشہور تفاسیر میں بھی یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ یہاں "سننے" سے مراد "ماننا" ہے۔ مثلاً:
تفسیر ابن قرطبی میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں: تفسیر جلالین میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں: تفسیر طبری میں اس آیت کی تفسیر اس لنک میں پڑھیں:
[ترمیم کریں] سورہ نمل کی آیت ۸۰ کی تفسی
ر
اہلحدیث حضرات سورہ نمل کی آیت ۸۰ کی غلط تفسیر پیش کر کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ حضرات صرف یہ ایک آیت پیش کرتے ہیں اور اس سے اگلی آیت کو بالکل گول کر جاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ خود اس لفظ "سننے" کی وضاحت کر رہا ہے۔
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
.(القران ۲۷:۸۰) آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے اگر وہ منہ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں اس آیت میں پھر اہلحدیث حضرات اپنی ظاہر پرستی کا ثبوت دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس آیت میں "سننا" اپنے ظاہری معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ان کے دعویٰ کا پول کھولنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم اس سے اگلی آیت پیش کر دیں جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اس لفظ "سننے" کی تشریح کر دی ہے۔
ذیل میں ہم اس آیت کو اور اس سے اگلی آیت کو پیش کر رہے ہیں۔ اور ساتھ میں اس کی مختصر تفسیر بریکٹ میں دے رہے ہیں تاکہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے کے اللہ اس آیت میں کیا فرما رہا ہے۔
(القران 27:80) آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (یعنی انہیں ہدایت مانے پر مجبور نہیں کر سکتے)، اور نہ ہی بہروں کو (یعنی کفار کو) اپنی پکار (یعنی ہدایت) سنا سکتے ہیں (یعنی منوا سکتے ہیں) جبکہ وہ پیٹھ پھیر لیں (یعنی جب کفار آپ کی بات اور اللہ کی نشانیوں پر کان دھرنے کے لیے تیار ہی نہ ہوں۔ مگر اگر یہ کفار (بہرے) اللہ کی نشانیوں پر غور کریں تو اللہ انہیں ہدایت سننے کی توفیق دے دے گا)۔
(القرن ۲۷:۸۱) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سنا(تسمع) سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں۔
اہلحدیث کے امام قرطبی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى الْمَوْتَى " يَعْنِي الْكُفَّار لِتَرْكِهِمْ التَّدَبُّر ; فَهُمْ كَالْمَوْتَى لَا حِسّ لَهُمْ وَلَا عَقْل . وَقِيلَ : هَذَا فِيمَنْ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يُؤْمِن .
اور آیت (اور آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے) یہاں "الموتی (مردہ لوگوں)" سے مراد کفار ہیں کہ جنہوں نے تدبر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ لوگ مردوں کی طرح ہیں جن میں (سوچنے سمجھنے) کی حس باقی نہیں رہیں ہے اور یہ عقل سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور یہ (مردہ کا لفظ) ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جن کے بارے میں یہ یقین ہو گیا ہے کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں (کیونکہ اللہ نے انکے دلوں پر قفل لگا دیا ہے)۔
مگر اب بھی کسی کو شک ہے کہ اس آیت میں اللہ نے بہرے سے مراد کفار لیے ہیں تو ذیل میں سورہ الانعام کی آیت ۲۵ کو ملاحظہ فرمائیں جس میں اللہ خود واضح فرما رہا ہے کہ قوم کے بہرے ہونے سے اسکی مراد کیا ہے:
وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ {25}
اور ان میں سے بعض لوگ کان لگا کر آپ کی بات سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں ...یہ سمجھ نہیں سکتے ہیں اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے -یہ اگر تمام نشانیوں کو دیکھ لیں تو بھی ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آئیں گے تو بھی بحث کریں گے اور کفار کہیں گے کہ یہ قرآن تو صرف اگلے لوگوں کی کہانی ہے {سورہ الانعام6:25} اسی طرح سورہ الانفال کی مندرجہ ذیل چار آیات ملاحظہ فرمائیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ {20} ایمان والو اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو {20}
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ {21} اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ کچھ نہیں سن رہے ہیں {21}
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22} اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں {22}
وَلَوْ عَلِمَ اللّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ {23} اور اگر خدا ان میں کسی خیر کو دیکھتا تو انہیں ضرور سناتا اور اگر سنا بھی دیتا تو یہ منہ پھرا لیتے اور اعراض سے کام لیتے {23}
ہمیں امید ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں کے لیے اب یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ اللہ نے قران میں سننا کن معنوں میں استعمال کیا ہے اور بہرے اور گونگے سے کیا مراد ہے۔ اور اس سلسلے میں اہلحدیث حضرات کا حضرت عائشہ کے اجتہاد کے پیچھے پناہ لینا کس حد تک قران سے انصاف ہے۔ اللھم صلی علی محمد و آل محمد
[ترمیم کریں] قتادہ کی رائے کہ بدر کے کافریں نے رسولﷺ کا پیغام سنا تھا کیونکہ اللہ نے انہیں اسکے لیے زندہ کر دیا تھا (اور اہلحدیث کا نتیجہ نکالنا کہ یہ صرف ایک معجزہ تھا)
اہلحدیث حضرات قتادہ کی رائے پیش کرتے ہیں کہ جس میں قتادہ کا کہنا ہے کہ بدر کے کافرین نے کنویں میں رسولﷺ کا خطاب سنا تھا کیونکہ اللہ نے انہیں زندہ کر دیا تھا۔ اور اس بنیاد پر اہلحدیث حضرات یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بدر کے کنویں میں کافرین کا یہ سننا صرف ایک معجزہ تھا ورنہ عموماً مردے نہیں سن سکتے۔
آئیے ذرا غور سے دیکھتے ہیں کہ قتادہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا اس سے یہ معجزہ والا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے یا نہیں۔ صحیح بخاری، کتابِ المغازی، باب قتل ابی جہل: آن لائن لنک حدثني عبد الله بن محمد سمع روح بن عبادة حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن قتادة قال ذكر لنا أنس بن مالك عن أبي طلحة أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم بدر بأربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من أطواء بدر خبيث مخبث وكان إذا ظهر على قوم أقام بالعرصة ثلاث ليال فلما كان ببدر اليوم الثالث أمر براحلته فشد عليها رحلها ثم مشى واتبعه أصحابه وقالوا ما نرى ينطلق إلا لبعض حاجته حتى قام على شفة الركي فجعل يناديهم بأسمائهم وأسماء آبائهم يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان أيسركم أنكم أطعتم الله ورسوله فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا قال فقال عمر يا رسول الله ما تكلم من أجساد لا أرواح لها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفس محمد بيده ما أنتم بأسمع لما أقول منهم قال قتادة أحياهم الله حتى أسمعهم قوله توبيخا وتصغيرا ونقيمة وحسرة وندما
ترجمہ: قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ ابو طلہ نے کہا کہ جنگ بدر کے دن نبیﷺ نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کو کنویں میں پھینک دئے جانے کا حکم دیا اور ان کی لاشیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک گندے کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپﷺ کا قاعدہ تھا کہ جب آپﷺ کسی قوم پر غالب آ جاتے تھے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے۔ جب بدر کے مقام پر تیسرا دن آیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی پر کجاوہ کسا گیا۔ پھر آپ پیدل روانہ ہوئے اور آپ ﷺ کے اصحاب بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی ضرورت کے لئے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کنویں کے کنارے کھڑے ہو گئے اور ان مشرکوں کو ان کے اور ان کے باپ داداؤں کے نام سے آواز دینے لگے کہ اے فلاں ابن فلانِ اے فلاں ابن فلاں(صحیح مسلم، کتاب "الجنہ و صفت نعیمھا و اہلھا"، میں ان کے نام یوں آئیں ہیں "یا ابو جہل بن ہشام، یا امیہ بن خلف، یا عتبہ" ) ! کیا تم کو یہ بہتر معلوم نہیں ہوتا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچا پایا۔ تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ ابو طلحہ نے کہا اس وقت جنابِ عمر رسول ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں کہ جن میں روح نہیں ہے۔ اس پر رسول ﷺ نے جواب دیا: اے عمر! اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ تم اتنا بہتر نہیں سن سکتے جتنا کہ یہ سن رہے ہیں۔
(آگے قتادہ (جو کہ ایک تابعی ہیں) اپنا خیال پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ) اللہ نے ان کفار کو واپس زندہ کر دیا تاکہ وہ رسول ﷺ کا کلام سن سکیں اور رسول ﷺ کی بات ان کے لئے ذلت و خواری، حسرت و ندامت کا باعث بنے۔
تبصرہ:
پہلی اور سب سے اہم بات یہ کہ قتادہ نے ہی نہیں کہا کہ یہ ایک معجزہ تھا جیسا کہ آجکل اہلحدیث حضرات عام مسلمانوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ قتادہ (ایک تابعی) اس واقعہ کے ڈائریکٹ گواہ نہیں ہیں بلکہ محض یہ ان کا اپنا ذاتی خیال ہے۔ قتادہ نے یہ واقعہ انس (صحابی) سے سنا، جنہوں نے یہ واقعہ ابو طلحہ (ایک اور صحابی) سے سنا تھا۔ تو سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قتادہ کو یہ کیسے پتا چلا کہ اللہ نے ان کفار کی روحوں کو ان کے جسموں میں واپس بھیجا تھا اور انہیں دبارہ زندگی دی تھی؟. رسول ﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نے کفار کو زندہ کرنے کے لیے ان کی ارواح دوبارہ ان کے جسموں میں داخل کیں۔ حضرت عمر جو کہ اُس موقع کے چشم دید گواہ ہیں (اور اسی طرح دیگر صحابہ) ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ اللہ نے ان کفار کو دوبارہ زندہ کیا۔ .
یہ حدیث بہت سے صحابہ سے مروی ہے مثلاً عبداللہ ابن عمر، ابو طلحہ، حضرت عائشہ (حضرت عائشہ کی رائے کے متعلق ہم انشاء اللہ آگے بحث کریں گے) وغیرہ۔ مگر ان میں سے ایک نے بھی کفار کو دوبارہ زندہ کرنے کی ذرا سی بھی بات نہیں کی ہے۔
چناچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر قتادہ کو یہ الہام کیسے ہوا کہ اللہ نے کفار کو دوبارہ زندہ کیا تھا؟ کیا اللہ نے قتادہ پر وحی نازل کی تھی اور جبرئیلؑ نے انہیں آ کر بتایا تھا کہ اللہ نے اُن کفار کو زندہ کیا تھا؟ اگر قتادہ پر ایسی وحی نہیں ہوئی تھی تو یہ صرف اور صرف قتادہ کا اپنا خیال ہے جس کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
[ترمیم کریں] قتادہ کا گمان رسول ﷺ اور جنابِ عمر کے واضح الفاظ کے بالکل متضاد ہے
جب رسول ﷺ نے کفار کو مخاطب کیا تو حضرت عمر شک و شبہ میں مبتلا ہو کر الجھن میں پڑ گئے اور اپنے اس شک و شبہ کو مٹانے کے لیے ہی وہ رسولﷺ سے دوبارہ تصدیق کرنے کے لیے یہ سوال کر رہے ہیں کہ:
حضرت عمر نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں جو کہ روحوں سے خالی ہیں۔
جبکہ قتادہ کا گمان یہ ہے کہ اللہ نے ان کی روحوں کو واپس کر کے ان کو دوبارہ زندہ کیا۔ تو ان دونوں میں سے صحیح کون ہے؟
اور رسول ﷺ کے جواب کو دیکھئیے کہ وہ حضرت عمر کے اس شک و شبہ کا کتنا واضح جواب دے رہے ہیں: رسولﷺ نے جواب دیا: اُس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میری بات کو اتنا بہتر نہیں سن سکتے کہ جتنا کہ یہ مردے سن رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر واقعی یہ روحوں کے پلٹائے جانے کا کیس ہوتا، تو رسولﷺ واجب تھا کہ حضرت عمر کو صاف صاف اس کے متعلق بتاتے۔ یہ رسول ﷺ کا منصبِ رسالت ہے جو کہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ رسول ﷺ دین کے معاملے میں لوگوں کے شکوک وشبہات کا ازالہ کریں۔ مگر یہاں رسول ﷺ کا جواب صاف صاف ظاہر کر رہا ہے کہ قتادہ اپنے اس گمان میں غلط ہیں۔
[ترمیم کریں] عبداللہ ابن عمر بمقابلہ حضرت عائشہ
حضرت عمر کے بیٹے (عبداللہ ابن عمر) اس بات کے قائل تھے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ (پچھلے باب میں ہم نے صحیح بخاری، باب الجنائز کی حدیث پیش کی تھی جس میں عبداللہ ابن عمر نے کہا تھا کہ مردے سن سکتے ہیں)۔ مگر جب حضرت عائشہ کو عبداللہ ابن عمر کی رائے کا علم ہوا، تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا۔ آجکل اہلحدیث حضرات حضرت عائشہ کہ یہی حدیث بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔
ایک اہلحدیث صاحب نے عبداللہ ابن عمر کی رائے کو رد کرتے ہوئے جواب میں یہ لکھا۔
اگرچہ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر اس بات کے قائل تھے کہ مردے سن سکتے ہیں، مگر حضرت عائشہ نے انکے اجتہاد کا رد کیا۔ جب ابن عمر کے اس قول کا ذکر حضرت عائشہ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ نبیﷺ نے تو صرف یہ کہا تھا کہ اُن لوگون کو اُس وقت پتا چل رہا ہے (یعنی ان پر عذاب ہونے کی وجہ سے) کہ میں جو اُن سے کہا کرتا تھا وہ حق تھا۔ پھر حضرت عائشہ نے اپنی بات کی شہادت میں یہ آیت پڑھی:
انک لا تسمع الموتی ولا تسمع الصم الدعاء اذا ولومدبرین (النمل، آیت ۸۰) ترجمہ: یعنی تم مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ اُن بہروں کو سنا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں۔ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القب ر اور حضرت عائشہ حضرت ابن عمر سے زیادہ فقیہ تھیں اور اِن سے زیادہ دین کا علم جاننے والی تھیں۔ اور ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ جب رسول ﷺ کی کسی حدیث میں اشکال پیدا ہو جاتا تھا تو ہم اسے حل کرانے کے لیے حضرت عائشہ کے پاس آتے تھے۔
اور اگرچہ کہ ابن عمر بھی فقییہ تھے مگر جب حضرت عمر قاتل کے وار سے زخمی ہو گئے تو لوگوں نے نئے خلیفہ کے تقرر سے متعلق ایک رائے یہ بھی پیش کی کہ حضرت عمر اپنے بیٹے کو ہی خلیفہ بنا دیں، تو حضرت عمر نے جواب دیا: اللہ کے قسم میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تچھ پر افسوس ہے! کیا میں ایسے شخص کو اپنا جانشین بناؤں جسے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا طریقہ بھی نہیں آتا؟ (صحیح بخاری، کتاب الاحکام)
اس تقابل سے نعوذ باللہ میرا مقصود حضرت ابن عمر کی شان گھٹانا نہیں ہے۔ آپ کی فضیلت اپنے مقام پر ہے لیکن جہاں تک قوتِ اجتہاد کا تعلق ہے، تو حضرت عائشہ کا مقام ان سے بلند تھا۔ تو اب اس معاملے کی حقیقت آپ پر کھل گئی ہو گی کہ رسول ﷺ نے کفارِ مکہ کو یہ الفاظ لعنت و ملامت کرتے ہوئے کہے اور یہی حضرت عائشہ کی بھی رائے تھی۔
[ترمیم کریں] ہمارا تبصرہ
حضرت عائشہ اس واقعہ کے وقت خود موجود نہیں تھیں۔ اس لیے جب انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے رسول ﷺ کے الفاظ کو اور ان کے معنوں کو بالکل تبدیل کر دیا۔ اور حضرت عائشہ کی یہ رائے ابن عمر اور اور ان تمام صحابہ کے بیانات کے بالکل متضاد ہے کہ جنہوں نے اس کنویں والی روایت کو نقل کیا ہے۔
حضرت عائشہ کی رائے یہ ہے کہ نہ تو رسول ﷺ نے مردوں کو مخاطب کیا تھا، اور نہ ہی اُن مردوں نے رسول ﷺ کی کوئی بات سنی ہے، بلکہ رسولﷺ نے کنویں کے پاس جا کر اپنے صحابہ کو مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ ان کفار پر اب عذاب ہو رہا ہے اور انہیں پتا چل رہا ہے کہ وہ سب کچھ حق تھا جو کہ میں (نبی ﷺ) انہیں بتایا کرتا تھا۔
شیخ جمال آفندی اپنی کتاب"اہلسنت کا عقیدہ اور سلفی تحریک" میں حضرت عائشہ کے ان الفاظ کا ذکر کر رہے ہیں: "حضرت عائشہ (اللہ ان سے راضی ہو) سے مروی ہے کہ جب انہوں نے کنویں والا واقعہ سنا تو انہوں نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ رسولﷺ مردوں کو مخاطب کریں، کیونکہ اللہ قران میں کہہ رہا ہے: "تم انہیں نہیں سنا سکتے جو کہ قبروں میں ہیں۔" آن لائن لنک:
یہاں حضرت عائشہ قران کی تفسیر بالرائے کر رہی ہیں اور ان کی مراد قران کی یہ آیت ہے: إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (القران ۲۷:۸۰) اور (اے رسول) آپ مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے (یعنی ان کفار سے اپنی بات نہیں منوا سکتے) اور نہ ہی بہروں کو اپنی بات سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہوں (یعنی ان کفار کا یہ رویہ یہ ہے کہ جہاں آپ نے ہدایت کی بات شروع کی، وہیں انہوں نے پیٹھ پھیر لی اور ہدایت حاصل نہیں کی)۔
اس آیت کی تفسیر بالرائے کر کے حضرت عائشہ اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ مردے نہیں سن سکتے، جبکہ اس حدیث میں مردوں سے مراد کفار ہیں اور سننے سے مراد ہدایت حاصل کرنا ہے (اس آیت پر ہم پہلے ہی سیر حاصل بحث کر چکے ہیں)۔ حضرت عائشہ کی یہ روایت صحیح مسلم میں یوں نقل ہوئی ہے:
حضرت عائشہ نے کہا: رسولﷺ کنویں کے کنارے کھڑے ہوئے کہ جس میں ان مشرکین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جو کہ بدر کے دن مارے گئے تھے۔ اور رسولﷺ نے وہ کہا جو انہیں کہنا تھا یعنی: "انہیں پتا چل رہا ہے جو میں نے کہا ہے"۔ مگر اِس (عبد اللہ ابن عمر) نے اس بات کو غلط سمجھا ہے۔ اور رسولﷺ نے تو صرف اتنا کہا تھا: "ان کفار کو اب سمجھ آ رہا ہے ّ(یعنی جب ان پر عذاب ہو رہا ہے) کہ جو کچھ میں انہیں بتایا کرتا تھا وہ حق و سچ تھا۔" پھر حضرت عائشہ نے یہ آیت پڑھی: " اور تم مردوں کو نہیں سنا سکتے۔۔" حوالہ: صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ اور صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ ہیں: رسولﷺ نے فرمایا: اب ان کفار کو پتا چل رہا ہے کہ جو کچھ میں انہیں بتایا کرتا تھا وہ سچ تھا۔ حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الجنائز
حضرت عائشہ کی یہ رائے پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل دو سوالات اٹھتے ہیں:
۱) آیا کہ رسولﷺ نے ان مردوں کو مخاطب کیا تھا کہ نہیں۔ (حضرت عائشہ کا دعویٰ ہے کہ رسولﷺ نے مردوں سے ہرگز ہرگز خطاب نہیں کیا تھا)۔ ۲) اور دوسرا یہ کہ آیا مردوں نے رسولﷺ کا یہ خطاب سنا تھا کہ نہیں (حضرت عائشہ کا کہنا یہ ہے کہ نہ تو خطاب ہوا، اور نہ ہی ان مردوں نے رسولﷺ کا ایک لفظ بھی سنا)۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب رسولﷺ جنگ بدر کے موقع پر مردوں سے یہ خطاب کر رہے تھے تو حضرت عائشہ وہاں پر موجود نہیں تھیں اور اس بات میں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ حضرت عائشہ کے دعویٰ کے برعکس یقیناً رسولﷺ نے مردوں کو مخاطب کیا تھا اور ان مردوں نے رسولﷺ کا یہ خطاب ایسے بہتر طریقے سے سنا تھا کہ کوئی زندہ انسان ایسے بہتے طریقے سے نہیں سن سکتا۔ حضرت عمر جو کہ اُس وقت موقع پر موجود تھے، وہ بھی رسولﷺ کے اس خطاب کو سن کر الجھن میں پڑ گئے تھے اور کنفیوز ہو گئے تھے اور اس لیے رسولﷺ سے اس خطاب کی پھر سے تصدیق کرنے کے لیے سوال کر رہے ہیں کہ: "یا رسول اللہ! کیا آپ ان مردہ جسموں سے مخاطب ہیں کہ جو کہ روحوں سے خالی ہیں؟" اور جواب میں رسولﷺ فرما رہے ہیں: "اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھوں میں محمد کی جان ہے، تم میری بات کو اتنا بہتر نہیں سن سکتے ہو جیسا کہ یہ مردے سن رہے ہیں۔"
رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر کے یہ الفاظ اس بات کو بالکل واضح کر رہے ہیں کہ بیشک رسولﷺ نے مردوں سے خطاب کیا اور انہوں نے لفظ بہ لفظ یہ خطاب سنا۔ اور حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ نہ ہی رسولﷺ نے خطاب کیا اور نہ ہی مردوں نے سنا، اس معاملے میں حضرت عائشہ سے غلطی ہوئی ہے۔ اور اس معاملے میں عبداللہ ابن عمر کی رائے درست ہے اور حضرت عائشہ نے غلطی کی ہے۔
(حضرت عائشہ ایک انسان تھیں اور ان پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی اور ان سے اور بھی جگہ غلطیاں ہوئی ہیں۔ آپ نے عبد اللہ ابن عمر کا واقعہ تو نقل کیا کہ انکے والد نے اس وجہ سے انہیں خلیفہ نہیں بنایا کیونکہ انہیں بیوی کو طلاق دینے کے طریقے کا پتا نہیں تھا۔ مگر کیا آپ نے یہ غور نہیں فرمایا کہ حضرت عائشہ نے بھی اپنے اجتہاد میں ایک بہت بڑی غلطی کی تھی جب آپ نے رضاعتِ کبیر کا فتویٰ دیا تھا (یعنی ایک جوان شخص بھی عورت کا دودھ پینے کے بعد اسکا محرم بن سکتا ہے)۔ مگر تمام علماء نے حضرت عائشہ کے اس اجتہاد کو رد کیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ وحی کے بغیر ہرکوئی غلطی کر سکتا ہے۔ مگر اہلحدیث حضرات کا اس معاملے میں عبداللہ ابن عمر کو غلط کہنا انصاف نہیں ہے کیونکہ فیصلہ ثبوت پر ہوتا ہے شخصیت پر نہیں۔
حیرت ہے کہ اہلحدیث کے تمام سلف علماء (ابن تیمیہ، ابن کثیر، قرطبی، طبری وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ مردے سن سکتے ہیں، مگر یہ حضرات اپنے ان سب علماء کے فتوؤں کو اس بات پر رد کر رہے ہیں کہ رسولﷺ کے علاوہ ہر شخص غلطی کر سکتا ہے اور انہیں شخصیت پرستی میں نہیں پڑنا چاہیے۔ مگر جب حضرت عائشہ کا مسئلہ آ رہا ہے تو یہی حضرات ڈبل سٹینڈرڈز دکھاتے ہیں اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا آرگومنٹ صرف اور صرف حضرت عائشہ کی ذات ہوتا ہے۔ لاحول ولا قوۃ)
[ترمیم کریں] حضرت عائشہ کا اپنی رائے کے خلاف عمل کرنا
حضرت عائشہ کا ایک اور عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں غلطی کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر کو ان کے حجرے میں دفنایا گیا تو یہ حضرت عائشہ ہی تھیں کہ جنہوں نے حضرت عمر کے نامحرم ہونے کی وجہ سے اپنے حجرے میں پردہ لینا شروع کر دیا تھا۔
امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کو حضرت عائشہ کے حجرے میں دفنائے جانے سے پہلے حضرت عائشہ وہاں بغیر حجاب کے رہا کرتی تھیں چونکہ رسولﷺ انکے شوہر تھے اور حضرت ابو بکر انکے والد۔ مگر جب حضرت عمر کو وہاں دفنایا گیا تو وہ حجرے میں صرف حجاب کے ساتھ جایا کرتی تھیں۔
شکوۃ شریف، باب زیارت القبور۔
تو ایک طرف حضرت عائشہ کیا یہ کہنا کہ مردے سن نہیں سکتے اور دوسری طرف یہ ماننا کہ وہ انہیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ اس معاملے میں حضرت عائشہ غلطی پر تھیں یا نہیں؟
[ترمیم کریں] حضرت عائشہ اور قتادہ کی آراء میں تضاد
حضرت عائشہ کا گمان یہ تھا کہ نہ تو رسولﷺ نے مردوں سے خطاب کیا تھا، اور نہ ہی مردوں نے رسولﷺ کا ایک بھی لفظ سنا تھا۔ جبکہ حضرت عائشہ کے اس گمان کے بالکل برعکس قتادہ یہ گمان کر رہے ہیں کہ نہ صرف رسولﷺ نے مردوں سے خطاب فرمایا، بلکہ مردوں نے رسولﷺ کا ایک ایک لفظ بہترین طریقے سے سنا۔ اور یہ سب اس وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ اللہ نے کفار کی روحوں کو ان کے جسموں میں پلٹا کر انہیں زندہ کر دیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات ان دونوں متضاد بیانات کو ایک ہی وقت میں استعمال کر کے اپنے عقائد کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا یہ طرزِ عمل عقل سے کسقدر دور ہے۔ ان اہلحدیث حضرات کو چاہئے کہ وہ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ ان دونوں میں سے صحیح کون ہے اور غلط کون۔ اور صرف یہ فیصلہ کرنے کے بعد ان میں سے کسی ایک کا قول اپنے دفاع کے لیے پیش کریں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی، کہ جن کی اہلحدیث حضرات بھی بہت عزت کرتے ہیں ، وہ حضرت عائشہ اور قتادہ دونوں کے اقوال کا موازنہ کرتے ہوئے بہت ہی دلچسپ بات لکھتےہیں: قتادہ نے جب یہ کہا کہ کنویں کے مردوں کو اللہ نے زندہ کیا تھا تو یہ انہوں نے اس لیے کہا تھا تاکہ وہ ان لوگوں کی رائے کو رد کرسکیں جو یہ کہتےتھے کہ مردے نہیں سن سکتے، جیسا کہ حضرت عائشہ کی رائے تھی جو کہ اس آیت کی بنیاد پر تھی کہ "اور تم مردوں کو نہیں سنا سکتے " (القران 27:80) ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، جلد 7، صفحہ 384 کیا مزید کچھ گنجائش باقی بچتی ہے کہ ہم ان اہلحدیث حضرات کی علمیت پر کچھ تبصرہ کریں؟ اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ قران اور رسولﷺ کی سنت سے ایک بھی ایسا ثبوت نہیں ملتا کہ جس سے ظاہر ہو کہ مردے نہیں سن سکتے۔ اور جب اہلحدیث حضرات کو رسولﷺ کی سنت سے ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملا، تو اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ حضرت عائشہ اور قتادہ کی (مٹضاد) آراء کو استعمال کر کے اپنے عقیدے کا دفاع کریں۔ اور انہوں نے ان دو متضاد آراء پر اپنے عقیدے کی پوری عمارت کھڑی کر لی ہے۔ خود سوچیے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ان دو متضاد آراء کو قبول کر لیا جائے اور قران کی اُن تمام آیات اور رسولﷺ کی ان تمام احادیث کو رد کر دیا جائے جو کہ اس معاملے میں واضح ہیں کہ مردے سن سکتے ہیں۔ اور یہ اہلحدیث حضرات کو چیلنج ہے کہ وہ رسولﷺ کی سنت سے صرف ایک واقعہ ہی ایسا بیان کر دیں جس میں رسولﷺ نے فرمایا ہو کہ مردے نہیں سن سکتے اہلحدیث حضرات سوائے ان کچھ قرانی آیات کو توڑنے مڑوڑنے کے رسول ﷺ سے ایک بھی ایسی واضح حدیث نہیں پیش کر سکتے کہ جس میں رسولﷺ نے مردوں کی سماعت کا انکار کیا ہو۔ جبکہ اس معاملے میں ہم نے پہلے باب میں کئی واضح احادیث پیش کیں تھیں جو کہ بالکل واضح ہیں کہ مردے سن سکتے ہیں مگر ان کو بدقسمتی سے اہلحدیث حضرات آنکھیں بند کر کے ٹھکرا دیتے ہیں۔