مذھب اھل بیت (ع) میں مفتی کیا علمی مراحل طے کرتا ہے؟
وکیپیڈیا سے
[ترمیم کریں] مذھب اھل بیت میں مفتی کتنی تعلیم حاصل کرتا ہے؟
ان امور کو مد نظر ھوناچایئے کہ اولاً قرآن مجیدجو احکام الھی کے لئے مھمترین مدرک ھے عربی زبان میں ھے۔ثانیاً احادیث و روایات بھی عربی ھونے کے علاوہ ۱۲۰۰ سال کے فاصلہ میں مختلف اشخاص کے ذریعہ ہم تک پہنچی ھیں۔ بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ موجودہ زمانہ میں اجتھاد اور استنباط اور احکام الھی کو دلائل اور مدارک سے سمجھنا ایک مشکل و دشوار ترین کام ھے اور اس کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا ھونا انتہائی لازمی ھے۔
پھلی شرط : عربی لغت کا علم حاصل کرنا یعنی عربی الفاظ کے معانی کا جاننا تا کہ جو کلمات قرآن مجید ، احادیث اور روایات اھل بیت علیھم السلام میں وارد ھوئے ھیں ان کے معانی معلوم ھوسکیں ۔ اس موضوع پر مخلتف کتابوں کا مطالعہ بھی ضروری ھے۔
دوسری شرط: تحصیل علم صرف و نحو کہ عربی الفاظ کے مشتقات اور صحیح جملہ بندی کی کیفیت بتاتے ھیں اور اس موضوع میں بھی چند کتابوں کا پڑھنا لازمی ھے۔
تیسری شرط: تحصیل علم اصول یعنی ان قواعد کا علم حاصل کرنا جو احکام الھی کو صحیح مدارک و منابع سے سمجھنے میں مدد دیتے ھیں۔ یہ علم بہت وسیع ھے ۔ اس علم کے مطالب کی تحقیق اور ان کے حل میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ھیں اور مرتبہٴ اجتھاد تک پہنچنے والے حضرات کا سب سے زیادہ وقت اسی علم کی تحصیل و تحقیق میں صرف ھوتا ھے۔ اگر کوئی شخص اس علم سے ناواقف ھو تو احکام الھی کے سمجھنے اور استنباط کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا ۔
چوتھی شرط: تحصیل علم رجال یعنی ان افراد کے حالات کا جاننا جن کے ذریعے احادیث و روایات ھم تک پہنچی ھیں۔ یعنی وہ لوگ جو پیغمبر اکرم(ص)اور ائمہ ھدی علیھم السلام کے اصحاب میں شامل ہیں اور جنھوں نے بارگاہ رسول اکرم یا ائمہ ھدی علیھم السلام سے دینی احکام حاصل کئے ھیں اور اسی طرح ان کے بعد وہ طبقات جن میں سے ھر طبقہ نے اپنے سابقہ طبقہ سے احادیث کو پہنچا یا ۔ صاحبان کتب اربعہ کے زمانہ تک یہ سلسلہ جاری رھا یعنی اس زمانہ تک کہ جس وقت اکثر احادیث و روایات کو شیعوں کی چار اھم کتابوں میں جمع کردیا گیا جو ”کتب اربعہ“ کے نام سے مشھور ھیں۔ ان مذکورہ افراد کی تعداد تقریباً ۱۳ ھزار کے قریب ھے۔ اسی طرح جو احادیث و روایات ان افراد کے ذریعہ مخلتف کتب میں اور پھر کتاب ”وسائل الشیعھ“ ( جو احادیث شیعہ کی معتبر ترین کتاب ھے) میں جمع کی گئی ھیں ان کی تعداد بھی ۲۷ ھزار کے آ س پاس ھے۔ بنابرایں کوئی شخص اپنے مذھبی احکام کو اپنے اجتھاد و استنباط کے ذریعہ حاصل کرنا چاھتا ھے تو اس کے لئے کتب رجال کا مطالعہ کرنا ضروری ھے جو ان افراد ”راوی احادیث“ کے حالات ، خصوصیات اور امتیازات میں لکھی گئی ھیں تا کہ ان افراد کے حالات سے مطلع ھونے کے بعد بآسانی احادیث و روایات کی صحت و فساد کو سمجہ سکے اور احکام الھی کے استنباط میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئے۔
پانچوی شرط: تحصیل علم تفسیر یعنی تفسیر سے اتنا واقف ھو کہ احکام سے متعلقہ آیات کے معنی و مطالب سمجہ سکے۔
چھٹی شرط: تحصیل علم حدیث یعنی احادیث و روایات میں تحقیق کرنا اور معلوم کرنا کہ آیا فلاں روایت فلاں حکم کے لئے دلیل بن سکتی ھے یا نھیں۔ آیا اس روایت میںاستدلال کے شرائط پائے جاتے ھیں یا نھیں؟ کوئی دوسری روایت تو اس کے خلاف نھیں؟ اسی طرح ھر حکم کے استنباط میں متعلقہ باب کی روایات کی تحقیق ، شرائط وموانع پر بحث کے علاوہ کسی حدتک دوسرے ابواب کی روایات پر بھی نظر کرنا کہ شرائط کے حصول کا پورا اطمنان ھوجائے۔
نتیجہ سابقہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ھے کہ جو شخص مجتھد بننا اور علمی قواعد اور اصول کے ذریعہ اپنے مذھبی مسائل کو خود مربوط مدارک سے حاصل کرنا چاھتا ھے اس کے لئے مذکورہ چھ علوم(علم لغت عربی، صرف و نحو، رجال، اصول، تفسیر، حدیث)میں سے ھر علم کی مختلف کتابیں پڑھنے کے علاوہ ھر علم میں صاحب نظر ھونا بھی ضروری ھے۔ تاکہ صحیح طور پر اپنے مقصد ”دلیل احکام دین “ تک پہنچ سکے۔ اور مذکورہ بالا مراحل کو طے کرنے اور مقصد اصلی” یعنی درجہ اجتھاد‘ ‘تک پہنچنے کے لئے(اشخاص کی استعداد مختلف ھونے کو مد نظر رکھتے ھوئے)تقریباً ۲۰ سال سے پچاس سال تک عرصہ صرف ھوتا ھے۔
01:34, 17 ستمبر 2005 (UTC) IRTIZA