مجتہد

وکیپیڈیا سے

ِشرایط مجتھد آیا جس مجتھد کی تقلید کرنی ھے اس میں مرتبہٴ اجتھاد و قدرت استنباط کے علاوہ اور شرائط کا ھونا ضروری ھے یا نھیں؟ مجتھد و مرجع تقلید میں مرتبہٴ اجتھاد پر فائز ھونے کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط کا ھونا بھی ضروری ھے: پہلی شرط : عادل ھو یعنی اس کا ایمان اس قدر کامل اور قوی ھو کہ واجبات میں سے کسی واجب کو ترک نہ کرے اور محرمات میں سے کوئی حرام کام کو انجام نہ دے۔ دوسرے لفظوں میں گناھان کبیرہ سے دور رھے اور گناھان صغیرہ کی تکرار نہ کرے۔ پس گنہگار مجتھد کتنا ھی بڑا عالم کیوں نہ ھو اس کی تقلید جائز نہیں۔ دوسری شرط: اعلم ھو یعنی دوسرے علماء سے زیادہ عالم اور دانا ھو چند صاحبان علم و فضل مجتھدین میں سے مقلد کو وہ مجتھد اختیار کرنا چاھئے جو بقیہ مجتھدین سے علم و فضل میں بر تر ھو۔ یہ ایک فطری امر ھے کہ جب کوئی شخص کسی مھلک مرض میں مبتلا ھو تو اسی ڈاکٹر کی طرف رجوع کریگا جو باقی تمام ڈاکٹروں سے زیادہ تجربہ کار ھو گا۔ چونکہ احکام الھی اور دینی عقائد و مسائل بھی اھمیت رکھتے ھیں لھذا انھیں بھی اسی مجتھد اور فقیہ سے حاصل کرنا چاھئے جو سب سے زیادہ عالم اور دانا ھو۔ تیسری شرط: وہ زندہ ھو۔ یعنی جو شخص ابتدا ھی سے علمائے گزشتہ میں سے کسی کی تقلید کرے اس کی تقلید صحیح نہیں ھے۔ کیونکہ عوام کا مجھتد کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈ اکٹر کی طرف رجوع کرنے کی طرح ھے اور واضح رھے کہ عقلاء کی روش و طریقہ یہ ھے کہ مریض کے بارے میں زندہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ھیں اور اس کے دستور پر عمل کرتے ھیں اور کسی مردہ ڈاکٹر کے دئے ھوئے کسی نسخہ پر عمل نہیں کرتے ھاں اگر کسی زندہ مجتھد کی تقلید کرلی ھے، کچھ مدت اس کے مسائل پر عمل کرنے کے بعد مجتھد فوت ھوگیا ھے تو اس صورت میں ا سکی تقلید پر دوسرے زندہ مجتھد کی اجازت کے ساتھ باقی رھا جاسکتا ھے۔ پس نتیجتاً فوت شدہ مجتھد کی تقلید پر باقی رھنا صحیح ھے۔ لیکن ابتدا ھی سے فوت شدہ مجتھد کی تقلید کرنا صحیح نہیں۔

کسی مجتھد کی اعلمیت کی تشخیص کرنا کہ یہ مجتھد اپنے ھم عصر مجتھدین سے علم میں زیادہ ھے ایک عام شخص کے لئے جو اس علم سے ناواقف ھے، کیسے ممکن ھے؟

اسے ایسے افراد کی طرف رجوع کرنا چاھئے جو فقھا کی کتب، دروس اور علمی گفتار سے ان کی علمی اھلیت کا اندازہ لگا سکتے ھیں ( جنھیں فقہ کی اصطلاح میں اھل خبرہ کھا جاتا ھے) اور اگر ایسے اشخاص کی طرف رجوع ممکن نہ ھو یا یہ معلوم ھو کہ تمام مجتھد علم میں مساوی ھیں تو جس کی تقلید کی جائے صحیح ھوگی۔اسکے علاوہ بھی اعلم کی شناخت کے اور طریقے ہیں تفصیلات کے لیئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کریں۔

اگر کسی شخص نے اپنی زندگی کا ایک حصہ بغیر تقلید کے گزار دیا ھے اور اپنی عبادات اور دیگر اعمال کو ماں باپ اور دوسرے لوگوں کے کہنے کے مطابق انجام دیتا ھے۔ اور اب معلوم ہوا ھے کہ تقلیدکرنا واجب ھے۔ اس کے سابقہ اعمال ( جو بغیر تقلید کے انجام دئے ھیں) صحیح ھیں یا غلط و باطل؟

اس کو چاھئے کہ اب کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے۔ اپنے سابقہ اعمال و عبادات کا اس کے فتوے سے مقابلہ کرے۔ جو اعمال اس مجتھد کے فتوے کے مطابق ھوں صحیح ھیں اور جو مطابق نہ ھوں اگر ممکن ھو تو ان اعمال کو دوبارہ اس مجتھد کے فتویٰ کے مطابق بجالائے اور اگر دوبارہ نہ بجالائے اور قیامت کے دن معلوم ھو جائے کہ یہ اعمال دستورات دینی کے مطابق نہ تھے تو یہ شخص عذاب الھی کا مستحق ھوگا کیونکہ ھر شخص کے لئے ضروری ھے کہ احکام خدا کو اس طرح بجالائے کہ اس کو اطمنان حاصل ھوجائے کہ میں نے اپنا وظیفہ پورا کردیا ھے ورنہ روز قیامت شرعاً اور عقلاً جواب دہ ھے۔

وہ ماخذ و مدارک کتنے ھیں جن سے مجتھد احکام الھی کو سمجھتا ھے؟ حکم الھی کا مدرک وہ منابع و مآخذ ھیں جن میں غور و فکر کرنے سے مجتھد احکام الھی کو اخذ کرتا ھے اور وہ ماٴخذ و مدارک چار چیزیں ھیں: 1. قرآن مجید ۔ 2. احادیث و روایات جو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہٴ ھدی علیھم السلام ( یعنی آپ کے بارہ جانشینوں) سے ھم تک پھونچی ھیں۔ 3. عقل و خرد جو باطنی رسول ھے جس طرح پیغمبر اکرم(ص) ظاھری رسول ھیں۔ 4. اجماع (مذھب اھل بیت(ع) میں اگر اجماع میں آئمہ بھی شامل ہوں تو معتبر ہے ورنہ نہیں لہذا اجماع بھی وہی آئمہ کی سیرت پر عمل کرنا ہے)

درجہٴ اجتھاد پر فائز ھونے اور احکام الھی کو مذکورہ بالا مدارک سے سمجھنے و حاصل کرنے کے لئے کن شرائط اور مقدمات کا ھونا ضروری ھے۔آیا سب کے لئے وہ شرائط میسر ھیں یا نھیں؟

ان امور کو مد نظر ھوناچایئے کہ اولاً قرآن مجیدجو احکام الھی کے لئے مھمترین مدرک ھے عربی زبان میں ھے۔ثانیاً احادیث و روایات بھی عربی ھونے کے علاوہ ۱۲۰۰ سال کے فاصلہ میں مختلف اشخاص کے ذریعہ ہم تک پہنچی ھیں۔ بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ موجودہ زمانہ میں اجتھاد اور استنباط اور احکام الھی کو دلائل اور مدارک سے سمجھنا ایک مشکل و دشوار ترین کام ھے اور اس کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا ھونا انتہائی لازمی ھے۔

پھلی شرط : عربی لغت کا علم حاصل کرنا یعنی عربی الفاظ کے معانی کا جاننا تا کہ جو کلمات قرآن مجید ، احادیث اور روایات اھل بیت علیھم السلام میں وارد ھوئے ھیں ان کے معانی معلوم ھوسکیں ۔ اس موضوع پر مخلتف کتابوں کا مطالعہ بھی ضروری ھے۔

دوسری شرط: تحصیل علم صرف و نحو کہ عربی الفاظ کے مشتقات اور صحیح جملہ بندی کی کیفیت بتاتے ھیں اور اس موضوع میں بھی چند کتابوں کا پڑھنا لازمی ھے۔

تیسری شرط: تحصیل علم اصول یعنی ان قواعد کا علم حاصل کرنا جو احکام الھی کو صحیح مدارک و منابع سے سمجھنے میں مدد دیتے ھیں۔ یہ علم بہت وسیع ھے ۔ اس علم کے مطالب کی تحقیق اور ان کے حل میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ھیں اور مرتبہٴ اجتھاد تک پہنچنے والے حضرات کا سب سے زیادہ وقت اسی علم کی تحصیل و تحقیق میں صرف ھوتا ھے۔ اگر کوئی شخص اس علم سے ناواقف ھو تو احکام الھی کے سمجھنے اور استنباط کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا ۔

چوتھی شرط: تحصیل علم رجال یعنی ان افراد کے حالات کا جاننا جن کے ذریعے احادیث و روایات ھم تک پہنچی ھیں۔ یعنی وہ لوگ جو پیغمبر اکرم(ص)اور ائمہ ھدی علیھم السلام کے اصحاب میں شامل ہیں اور جنھوں نے بارگاہ رسول اکرم یا ائمہ ھدی علیھم السلام سے دینی احکام حاصل کئے ھیں اور اسی طرح ان کے بعد وہ طبقات جن میں سے ھر طبقہ نے اپنے سابقہ طبقہ سے احادیث کو پہنچا یا ۔ صاحبان کتب اربعہ کے زمانہ تک یہ سلسلہ جاری رھا یعنی اس زمانہ تک کہ جس وقت اکثر احادیث و روایات کو شیعوں کی چار اھم کتابوں میں جمع کردیا گیا جو ”کتب اربعہ“ کے نام سے مشھور ھیں۔ ان مذکورہ افراد کی تعداد تقریباً ۱۳ ھزار کے قریب ھے۔ اسی طرح جو احادیث و روایات ان افراد کے ذریعہ مخلتف کتب میں اور پھر کتاب ”وسائل الشیعھ“ ( جو احادیث شیعہ کی معتبر ترین کتاب ھے) میں جمع کی گئی ھیں ان کی تعداد بھی ۲۷ ھزار کے آ س پاس ھے۔ بنابرایں کوئی شخص اپنے مذھبی احکام کو اپنے اجتھاد و استنباط کے ذریعہ حاصل کرنا چاھتا ھے تو اس کے لئے کتب رجال کا مطالعہ کرنا ضروری ھے جو ان افراد ”راوی احادیث“ کے حالات ، خصوصیات اور امتیازات میں لکھی گئی ھیں تا کہ ان افراد کے حالات سے مطلع ھونے کے بعد بآسانی احادیث و روایات کی صحت و فساد کو سمجہ سکے اور احکام الھی کے استنباط میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئے۔

پانچوی شرط: تحصیل علم تفسیر یعنی تفسیر سے اتنا واقف ھو کہ احکام سے متعلقہ آیات کے معنی و مطالب سمجہ سکے۔

چھٹی شرط: تحصیل علم حدیث یعنی احادیث و روایات میں تحقیق کرنا اور معلوم کرنا کہ آیا فلاں روایت فلاں حکم کے لئے دلیل بن سکتی ھے یا نھیں۔ آیا اس روایت میںاستدلال کے شرائط پائے جاتے ھیں یا نھیں؟ کوئی دوسری روایت تو اس کے خلاف نھیں؟ اسی طرح ھر حکم کے استنباط میں متعلقہ باب کی روایات کی تحقیق ، شرائط وموانع پر بحث کے علاوہ کسی حدتک دوسرے ابواب کی روایات پر بھی نظر کرنا کہ شرائط کے حصول کا پورا اطمنان ھوجائے۔

نتیجہ سابقہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ھے کہ جو شخص مجتھد بننا اور علمی قواعد اور اصول کے ذریعہ اپنے مذھبی مسائل کو خود مربوط مدارک سے حاصل کرنا چاھتا ھے اس کے لئے مذکورہ چھ علوم(علم لغت عربی، صرف و نحو، رجال، اصول، تفسیر، حدیث)میں سے ھر علم کی مختلف کتابیں پڑھنے کے علاوہ ھر علم میں صاحب نظر ھونا بھی ضروری ھے۔ تاکہ صحیح طور پر اپنے مقصد ”دلیل احکام دین “ تک پہنچ سکے۔ اور مذکورہ بالا مراحل کو طے کرنے اور مقصد اصلی” یعنی درجہ اجتھاد‘ ‘تک پہنچنے کے لئے(اشخاص کی استعداد مختلف ھونے کو مد نظر رکھتے ھوئے)تقریباً ۲۰ سال سے پچاس سال تک عرصہ صرف ھوتا ھے۔