تقلید

وکیپیڈیا سے

تقلید اور مجتھد تقلید کیا ھے؟

دلیل طلب کئے بغیر کسی کا قول قبول کرنا تقلید ھے۔ جس طرح بیمار اپنے طبیب کے دستور کی پیروی اور اسی کے مطابق عمل کرتا ھے۔

تقلید کن موضوعات میں ھوسکتی ھے۔ مقلد کسے کہتے ھیں؟

کسی بھی موضوع میں جب انسان کوئی مطلب نہ سمجھ سکے اور دوسروں سے حاصل کرے اسے تقلید کہیں گے۔ البتہ تقلید کے زیادہ تر موارد ایسے امور ھیں جھاں تعلیم و تجربہ کی احتیاج ھوتی ھے۔ چونکہ کسی بھی علم سے بے بہرہ افراد عالم و ماھر اور تجربہ کار سے ھی اس علم کے مسائل کو حاصل کرتے ھیں۔ لھذا ایسے افراد کو مقلد اور عالم و ماھر فن کو اس علم و فن کا مجتھد کہتے ھیں۔ جیسے ڈاکٹر و طبیب انسانی بدن کے حالات اور صحت و مرض سے واقفیت رکھتا ھے۔ دواساز دواؤں کی خصوصیات سے مطلع ھوتا ھے۔ معمارمکان کے بنانے میں ماھر ھے۔ سنار سونا چاندی اور دوسرے جواھرات کی تشخیص میں ماھر ھے۔ درزی لباس اور اس کی سلائی میں استاد ھے۔ گھڑی ساز گھڑی کی خوبی و بدی اور اس کے داخلی حالات سے آگاہ ھے اور حکیم و فلسفی اپنی استعداد بشری کے مطابق موجودات کے حقایق سے با خبر ھوتا ھے۔ نتیجہ: ھر علم و فن کے عالم، دانشمند اور متخصص(Expert) کو اس علم کا مجتھد اور ناواقف حضرات جب اس مجتھد کی طرف رجوع کرتے ھیں تو انھیں مقلد کہا جاتا ھے۔

مذھبی مسائل

مذھبی مسائل دو قسم کے ھیں: ۱۔ اصولی مسائل جن میں توحید ، صفات پروردگارمثلاًعدل وغیرہ نبوت، امامت اورقیامت سے متعلق مسائل شامل ھیں۔ ۲۔ فروعی مسائل جن میں مسائل عبادات و معاملات وغیرہ شامل ھیں۔ پہلی قسم ہمارے موضوع سے باہر ھے کیونکہ یہ بات مسلم ھے کہ اصولی مسائل میں تقلید نہیں ہو سکتی بلکہ ھر عاقل انسان کے لئے ضروری ھے کہ وہ ان اصولی مسائل کی معرفت حاصل کرنے کے لئے فکری و عقلی استدلال سے کام لے اور پھر انھیں اپنے عقاید میں شامل کرے، یہاں ھماری بحث دین کے فروعی مسائل سے متعلق ھے۔ اصولی مسائل کے لئے مختصر، روشن اور عام فھم دلیل بیان کی جاسکتی ھے لیکن احکام فرعیہ کے استنباط (سمجھنے) کے لئے کچھ شرائط کا ھونا ضروری ھے جو سب لوگوں کو موجود نھیں ہے۔ دینی احکام میں مجتھد اور مرجع تقلید کون ھوتا ھے؟

مجتھد وہ شخص ہے جو لوگوں کے مذھبی، معاشرتی، اجتماعی معاملات اور زندگی کے دیگر امور اور روزمرہ کے مسائل کو دلائل و براھین کے ذریعے قرآن، سنت، عقل اور اجماع کے ذریعہ حاصل کرے ۔ دوسرے الفاظ میں مجتھد وہ ھوتا ھے جو انسان کے لیئے خداوند کی طرف سے بھیجے گئے آفاقی دین سے عام انسان کا وظیفہ اسکو بتاتا ہے تاکہ وہ خداوند کے بھیجے گئے دین کی صحیح طرح سے اطاعت کرسکیں۔

ایک مسلمان اور معتقد انسان کا اپنے مذھبی مسائل میں کیا وظیفہ ھے؟

وہ خود مجتھد ہویا جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے۔

اس کی کیا وجہ ھے کہ انسان کو ان دومیں سے ایک راہ اختیار کرنی ھوتی ھے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ادیان آسمانی میں سے کسی دین نے اپنے پیروکاروں کو حیوانات کی طرح بلا تکلیف اور وظیفہ نھیں چھوڑا ھے بلکہ کچھ احکام اور دستور بنائے گئے تا کہ ان کا علم حاصل کرکے ان پر عمل کیا جائے۔ دین اسلام نے بھی جو آخری آسمانی دستور اور خاتم ادیان ھے کچھ احکام اور قوانین بیان کئے ھیں جن کا استنباط قرآنی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام سے کافی دقت کے ساتھ مخصوص شرائط پرنظر رکھ کر کیا جاتا ھے۔ پس جو شخص خود تحقیق کرے اور مذکورہ بالا مدارک سے اپنے روز مرہ کے مسائل کو حاصل کرے وہ مجتھد ھے۔ اورجو شخص اتنی صلاحیت یا اتنا وقت نہیں رکھتا تو اس کو چاھئے کہ مجتھد کی پیروی کرے۔ ایسے شخص کو مقلد کہتے ھیں۔

تقلید کن دلائل کی روسے واجب ھے؟

جو شخص دینی احکام میں خود مجتھد نہیں ہے مندرجہ ذیل دلائل کی رو سے اس کے لئے کسی مجتھد کی تقلید کرنا ضروری ھے۔ پھلی دلیل : عقل کا حکم ، تقاضا ئے فطرت اور عقلاء کی روش پر مبنی ھے ۔ مثلاً کوئی مریض خود اپنے مرض اور اس کی دوا کی تشخیص نہ کر سکتا ھو اور اس کے لئے دوسرے کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھو تو اس کی عقل یہ فیصلہ کرے گی کہ اسے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاھئے اور ڈاکٹر کے موجود ھوتے ھوئے بھی اس کی طرف رجوع نہ کرے جس کی وجہ سے مرض بڑھ جائے یا موت آجائے تو عقلاء اس کی مذمت کریں گے اور اس کا عذر قابل قبول نہ ھوگا۔ اب جبکہ مریض یہ سمجھ کر کہ ڈاکٹر کی تشخیص، بیماری کے اصل علل و اسباب اور اس کے ازالے کا طریقہ اس کے احاطہٴ قدرت سے باھر ھے ڈاکٹر سے اپنے علاج کی دلیل طلب کرے تو مورد تنقید واقع ھوگا۔

دوسری دلیل: آیہٴ شریفہ " و ما کان الموٴمنون لینفروا کافۃ فلو لا نفر من کلّ فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعو ا الیھم لعلھم یحذرون "(سورہٴ برائت/ ۱۲۲) یعنی تمام مومنوں کے لئے اپنے وطن کو تحصیل علم دین کے لئے چھوڑنا ممکن نھیں ھے، پس حتماً ھر گروہ میں سے چند آدمیوں کا تحصیل علم دین کے لئے جانا ضروری ھے اور وہ جب اپنے اپنے وطن واپس لوٹیں تو ان کو چاھئے کہ دوسرے لوگوں کو دینی احکام تعلیم دیں اور ان کو عذاب الھی سے ڈرائیں ، شاید وہ ا ن کی گفتار کی پیروی کرتے ھوئے عذاب الھی سے ڈرائیں۔ یہ آیہٴ شریفہ تفقہ یعنی تحصیل علم و احکام دین کو بعض افراد کے لئے واجب قرار دینے کے علاوہ ان احکام کا دوسروں تک پہنچانا بھی لازمی قرار دے رھی ھے۔ التبہ احکام دین حاصل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے دو طریقے قابل عمل ھیں کہ آیہٴ شریفہ دونوں کی تائید کر رھی ھے۔

پھلا طریقہ: خودروایت کا حاصل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا۔ غالباً سابقہ زمانے میں اصحاب معصومین علیھم السلام کا طریقہ بھی یھی تھا یہی وجہ ھے کہ ان کو راوی اور ناقلین حدیث کہا جاتا تھا ۔ دوسرا طریقہ: اس فن کا ماھر اور تتبع کرنے کرنے والا عالم دین، آیات و روایات میں غور فکر کرکے اصولی اور فقھی قواعد کے ذریعہ تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد ( جسے اجتھاد کہا جاتا ھے) جس نتیجہ پر پہنچے اس کو فتویٰ کی صورت میں دوسروں کے سپرد کرے ،جیسے کہ آئمہ علیھم السلام کے بعض شاگرد ایساھی کرتے تھے۔ حضرت ولی عصر آخر الزمان ارواحنا فداہ کے زمانہ غیبت سے لوگوں تک احکام دین پہنچانے کا یہی طریقہ علماء نے اختیار کر رکھا ہے اور آیہٴ شریفہ بھی اس طریقہ کواپنے اندر شامل کرتی ھے۔ پس اس مختصر بیان سے یہ تنیجہ حاصل ھوتا ھے کہ آیہ شریفہ نقل روایت کے حجت اور معتبر ھونے کے ساتھ ساتھ مجتھد کے فتویٰ کے حجت و معتبر ھونے کو بھی ثابت کر رھی ھے۔

تیسری دلیل: تقلید کے واجب ہونےکی تیسری دلیل وہ روایات ھیں جو اس بارے میں آئمہ علیھم السلام سے ھم تک پہنچی ہیں اور ثابت کرتی ھیں کہ جو لوگ احکام دین اور مذھبی مسائل کو نہیں جانتے انھیں چاھئے کہ اس فن میں ماھر علماء اور محققین کی تقلید کریں یعنی اپنے ضروری مسائل کا حل ان سے حاصل کریں۔ اس سلسلہ میں چند روایات مندرجہ ذیل ھیں :

پھلی روایت : نجاشی جو علمائے شیعہ میں سے ھیں اپنی علم رجال کی معروف کتاب میں امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں کہ آپ نے اپنے شاگردوں میں سے ایک ممتاز شاگرد ابان سے فرمایا: ”یا ابان! اجلس فی المسجد النبی و افت الناس فانی احبّ ان یریٰ فی اصحابی مثلک“۔ یعنی اے ابان !جب مدینہ آؤ تو مسجد پیغمبر میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے دو (یعنی احکام دین بتاؤ) کیونکہ میں پسند کرتا ھوں کہ لوگ میرے اصحاب میں سے تم جیسے صحابی دیکھیں۔(۱) ابان جو مجتھد اور صاحب فتویٰ تھے، امام علیہ السلام نے ان کو فتویٰ دینے کا حکم فرمایا تا کہ لوگ سنیں اور اس پر عمل کریں اور امام(ع) کی نظر میں تمام مجتھدین اور صاحب فتویٰ ابان کی طرح ھیں یعنی حکم امام(ع) کے مطابق ھر شخص کے لئے جو خود مجتھد نہیں ھے، ضروری ھے کہ اپنے ضروری مسائل میں کسی کی تقلید اور اس کے فتووں پر عمل کرے۔ دوسری روایت:کتاب وسائل الشیعہ( مذھب شیعہ میں حدیث کی مستند کتاب) کے باب ۱۰ ”کتاب القضاء“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل ھوئی ھے کہ آپ نے” معاذ“ نامی شخص سے فرمایا: بلغنی انک تقعد فی الجامع و تفتی فیہ قلت نعم یحیی الرجل اعرفہ بمودّتکم وحبکم فاخبرہ بما جاء عنکم فقال اصنع ”قم ملخصاً“ اے معاذ میں نے سنا ھے کہ تم مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے دیتے ھو؟ میں نے عرض کی کہ ہاں ایسا ھی ھے، جوکچھ میں نے آپ سے حاصل کیا ھے آپ کے محبوں و دوستوں کے لئے بیان کرتاھوں۔ آپ نے فرمایا ایسا ھی کرو۔(۲) معاذ روایات معصومین علیھم السلام سے حکم الھی کا استنباط کر کے فتویٰ کی صورت میں لوگوں کو بتاتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی معاذ کے اس عمل کی تائید فرمائی۔ امام علیہ السلام کی نظر میں معاذ اور دوسرے مجتھدین یکساں ھیں یعنی مجتھدین کا فتویٰ لوگوں کے لئے حجت ھے اور اس پہ عمل کرناضروری ھے۔ تیسری روایت: کتاب وسائل الشیعہ باب۱۰ ” کتاب القضاء‘ ‘ میں عبد العزیز نامی ایک شخص حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا ھے ۔ یا حضرت: میرا گھربھت دور ھے میں اپنے ضروری مسائل جاننے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا ۔ آیاآپ یونس بن عبد الرحمن کی تائید فرماتے ھیں اورکیامیں ان سے اپنے دینی مسائل حاصل کر سکتا ھوں ؟ امام علیہ السلام بے فرمایا: ہاں۔(۳) چوتھی روایت : کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضاء میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تفسیر سے نقل ھے: ”فاما من کان من الفقھاء صائناً لنفسہ حافظاً لدینہ مخالفاً لھوا ہ مطیعاً لامر مولاہ فللعوام ان یقلدوہ “۔(۴) مجتھدین اور فقھاء میں سے جو شخص اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھنے والا، اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ، خواھشات نفسانی کی مخالفت کرنے والا اور حکم خدا کی اطاعت کرنے والا ھو تو عوام پر لازم ھے کہ اسکی تقلید کریں۔

گزشتہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ عوام میں سے ان لوگوں پر جو دینی مسائل اور احکام الھی سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے لازم ھے کہ کسی مجتھد (فقیہ) یعنی اس فن کے ماھر شخص کی تقلید اور پیروی کریں۔ اگر چہ وہ لوگ دوسرے علوم و فنون میں خود ماھر و متخصص کیوں نہ ھوں جیسا کہ مجتھد فقیہ کے لئے بھی دوسرے علوم و فنون کے ضروری مسائل میں ماھر فن (Expert) کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے۔ پس یہ کہنا بجا ھوگا کہ اس دنیا میں صحیح اور عقلی زندگی کی بنیاد تقلید پر ھے کیونکہ معاشرے کے تمام افراد نہ فقط تمام علوم و فنون میں ماھر نہیں بن سکتے بلکہ ضرورت کے مطابق انکو حاصل کرنے پر بھی قادر نہیں ھیں” جس کی وجہ سے معاشرہ کا ھر فرد دوسرے کا محتاج ھے“ مثلاً ڈاکٹر کے لئے مکان بنانے میں معمار کی طرف اور معمار کے لئے بیماری میں ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے اور ان دونوں کے لئے دینی مسائل میں مجتھد و فقیہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی تقلید کرنا لازم ھے۔

رجوع تقلید کا لازم و واجب ھونا عقل کے علاوہ قرآن اور احادیث کی رو سے بھی ثابت ھے۔ اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے اس موضوع کی مفصل کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ھے۔

بعض لوگ کہتے ھیں کہ تقلید باطل بلکہ بدعت اور حرام ھے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

پہلے ہم ان لوگوں کے دلایل بیان کرینگے جو تقلید کو حرام قرار دیتے ہیں پھر انکا جواب عرض کرینگے۔ ان کا دعوے ہے کہ بعض آیات و روایات بھی تقلید کے حرام ھونے پردلالت کرتی ھیںمثاکل کے طور پر سورہٴ زخرف کی آیت ۲۳: "انا وجدنا آبائنا علی امۃ و انا علی آثارھم مقتدون" ھم نے اپنے آباء واجداد کو ایک طریقہ پر پایا ھے۔ ھم بھی ان کی اتباع کرنے والے ھیں۔ اور اسی طرح کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضاء میں سفیان سے روایت ھے: قال الصادق علیہ السلام لسفیان بن خالد ایّاک و الریاسۃ فما طلبھا احد الّا ھلک فقلت قد ھلکنا اذا لیس احد منّا الّا ھو یحبّ یذّکر و یقصد و یوٴخذ عنہ فقال (ع) لیس حیث یذھب انّما ذالک ان تنصب رجلاً دون الحجۃ فتصدقہ فی کلّ ما قال و تدعو النّاس الیٰ وقلہ ۔ (۵) امام صادق علیہ السلام نے سفیان بن خالدسے فرمایا ۔ اے سفیان! ریاست سے بچوچونکہ جو بھی ریاست کے پیچھے پڑا ھلاک ھوا۔ سفیان کہتے ھیں: میں نے عرض کی،پس ھم سب معرض ھلاکت میں ھیں کیونکہ ھم میں سے ھر ایک چاھتا ھے کہ لوگوں میں اس کا نام لیا جائے اور لوگ اس کے پاس آکر علم حاصل کریں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد یہ نھیں جو تم نے سمجھا ھے بلکہ اس مذمت سے میرا مقصد یہ ھے کہ تم کسی کو حجت یعنی تائید معصوم کے بغیر نصب کرکے ھر موضوع میں اس کی گفتار کی تصدیق اور لوگوں کو اس کی بات کی طرف دعوت دو۔

جواب : معلوم ھوتا ھے کہ جو لوگ تقلید کے منکر ھیں یا تقلید کے حرام ھونے کا فتویٰ دیتے ھیں وہ اصلاً تقلید کے معنیٰ و مفھوم سے غافل ھیں اور انھوں نے اس بارے میں علماء کی مراد نہیں سمجھی ھے کیونکہ اگر تقلید کا یہ معنی لیا جائے کہ کسی مجتھد اور اس کی گفتار کو پیغمبر اور امام کے مدّ مقابل قرار دیاجائے مثلاً مجتھد کہے کہ پیغمبر اور امام کا فرمان یہ ھے اور ان کے مقابل میں میرا فتویٰ یہ ھے یعنی اس کے فتویٰ کا استناد آیات و روایات کی طرف نہ ھوتو ایسے مجتھد کی تقلید بدعت اور حرام ھے۔ کیونکہ احکام الھی اور دستورات شرعی کے حصول میں کتاب خدا (قرآن مجید) اور فرامین معصومین علیھم السلام ( جو فقط ۱۴ ھستیاں ھیں) کے علاوہ کسی کی بات قابل قبول نھیں۔لیکن اگر فرض کریں کہ ایک شخص نے سالھا سال زحمت و تکلیف کے بعد آیات قرآنی و روایات معصومین علیھم السلام سے ،جو اس صورت میں جو شخص خود کلام خدا اور فرامین ائمہ علیھم السلام سے احکام خدا و دستورات دینی کو سمجھنے کی قدرت نھیں رکھتا وہ اپنے دینی مسائل میں ایسے عالم مجتھد کی تقلید کرے تو یقینا ایسی تقلید نہ فقط عقلاً صحیح ھے بلکہ دستور ائمہ علیھم السلام کے مطابق لازم اور واجب ھے۔ اگر کبھی کوئی مجتھد کہے کہ میری رائے اور میرا فتویٰ اس طرح ھے تو اس کا مقصد یہ ھوگا کہ جو کچھ میں نے قرآن مجید اور احادیث وفرامین ائمہ علیھم السلام سے سمجھا ھے وہ یہ ھے ورنہ اس کی تقلید، رائے اور فتویٰ قابل قبول نہ ھوں گے۔

منکرین تقلید کے دلائل کا جواب وہ آیات جو تقلید کی مذمت کے لئے پیش کی جاتی ھیں ، اولاً تو کفار سے متعلق ھیں۔ ثانیاً ان سے اصول دین میں تقلید کی مذمت واضح ھوتی ھے۔ چونکہ کفار پیغمبران الھی کے خلاف ھونے اور اپنی بری اور فاسد عادات کی پیروی کرنے کے علاوہ انبیاء کے معجزات اور دلائل کے مقابلے میں اپنے آباء و اجداد کے غلط عقائد اور طریقوں کی اتباع کرتے تھے۔ لھذا سورہٴ زخرف کی آیت/ ۲۳ جو دلیل کے عنوان سے ذکر ہوئی کے دو جواب ھیں:

پھلا جواب: آیت اصول دین میں تقلید کی مذمت کر رھی ھے اور وہ بھی انبیاء (ع) کے دلائل اور معجزات کے مقابلہ میں۔ جیساکہ پہلے والی آیت بھی اسی مطلب کی وضاحت کر رھی ھیں: و کذالک ما ارسلنا من قبلک فی قریۃ من نذیر الّاقال مترفوھا انّا وجدنا آبائنا علی امّۃ و انّا علیٰ آثارھم مقتدون۔ (ترجمہ) اور اسی طرح ھم نے تم سے پہلے جس بستی میں ( عذاب خدا سے ڈرانے والا) رسول بھیجا تو اس کے دولت مندوں نے یھی کہا کہ ھم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا اور ھم تو ان ھی (آباء و اجداد) کے نقش قدم پرچلیں گے۔(۶)

دوسرا جواب: آیہٴ شریفہ میں اس لئے تقلید کی مذمت کی گئی ھے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرتے تھے اور یہ بات واضح ھے کہ ان کے آباء و اجداد بھی ان کی طرح جاھل و نادان تھے۔ پس در حقیقت آیہٴ شریفہ میں جاھلوں اور نادانوں کی تقلید سے روکا گیا ھے نہ کہ صاحبان علم و فضل کی تقلید سے۔ اسی طرح روایت کا جواب بھی جس کو دلیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ھے، اگر خود روایت میں غور و فکر کیا جائے تو واضح ھوجاتا ھے :

اولاً: حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں کہ لوگ خود کسی کو مقام فتویٰ اور قضاوت کے لئے مقرر نہیں کر سکتے یعنی لوگوں کو یہ حق حاصل نھیں ھے بلکہ مجتھد اور قاضی امام(ع) کی طرف سے منصوب ہوتے ھیں اور خود امام علیہ السلام نے ان کے فتویٰ کو معتبر قرار دیا ھے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ھے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”یا ابان اجلس فی المسجد و افت النّاس “ اور فرمایا: ”فامّا من کان من الفقھاء فللعوام ان یقلدوہ“۔ اور قاضی فقیہ سے متعلق فرمایا: ”فقد جعلتہ علیکم قاضیاً“ (۷) پس عوام کا مجتھد و فقیہ عادل کی تقلید کرنا خود امام علیہ السلام کے حکم کی وجہ سے ہے نہ کہ عوام نے اس کو نصب ومقرر کیا ھو اور عوام کی طرف سے اس کو یہ منصب دیاگیا ھو۔

ثانیاً :امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: ایّاک وان تنصب رجلاً دون الحجۃ۔(۸) حجت سے مراد وہ ھے جس کا قول شرعاً نافذ ھو خواہ وہ امام جو مفترض الطاعہ (جس کی اطاعت فرض ہے) ھو یا جس کو امام کی طرف سے یہ مقام عطا ھوا ھو۔ پس اس بنا پر مجتھد بھی حجت ھے لیکن امام (ع) خدا کی طرف سے اور مجتھد امام(ع) کی طرف سے حجت ھے۔ چنانچہ حضرت امام آخر الزمان علیہ السلام مکاتبہ حمیری میں ارشاد فرماتے ھیں: امّا الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الیٰ رواۃ احادیثنا فانّھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ۔(۹) یعنی بعد میں پیش آنے والے حوادث اور واقعات میں ان اشخاص کی طرف رجوع کرو جو ھمارے علوم کو حاصل کر کے دوسروں تک پہنچاتے ھیں کیونکہ وہ میری طرف سے حجت ھیں اور میں خدا کی طرف سے حجت ھوں۔ پس حضرت کے اس فرمان: ”ایّاک ان تنصب رجلاً “ سے مراد یہ ھے کہ امام اور جو امام کی طرف سے منصوب ھے اس کے علاوہ کسی کو حجت اور مجتھد کے عنوان سے معین کیا جائے ۔ اور مقلد ( تقلید کرنے والا) بھی خود حجت (مجتھد ) کو معین نہیں کرتا بلکہ امام کی طرف سے منصوب حجت کی طرف رجوع کرتا ھے۔

ثالثاً: خود تذکرہ روایت سے استفادہ ھوتا ھے کہ مجتھد اور مرجع (جس کی طرف لوگ رجوع کریں) ھونا الگ مطلب ھے اور کسی کو حجت قرار دینا الگ ھے، پھلا جائزھے اور دوسرا حرام ھے۔ کیونکہ ھمارے پاس آئیں اور علم حاصل کریں (و یقصد و یوٴخذ عنہ) آپ فرماتے ھیں میں اس کی مذمت نہیں کرتا بلکہ مذمت اس صورت میں ھے جب تم کسی کو حجت کے عنوان سے معین کرو۔ (یہاں یقینا کسی کومقرر کرنے سے مراد مسئلہ تقلید اور تحصیل علم کے علاوہ ھے) حضرت نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ھے جو آئمہ ھدی علیھم السلام ( جو پیغمبر (ص) کی طرف سے منصوب ھیں) کے مقابلہ میں بنی امیہ و بنی عباس کو اولی الامر اور حجت سمجھتے ھیں جن کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ھے۔ اور یہ بات واضح ھے کہ اگر بفرض محال حدیث ثقلین (۱۰)( حدیث ثقلین وہ حدیث ھے جس کے متعلق سنی و شیعہ دونوں متفق ھیں کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا: انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلّوا بعدی” میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رھا ھوں ایک اللہ کی کتاب دوسرے میری عترت یعنی اھل بیت جب تک تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے ھرگز میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ھو گے “۔ اور یہ بات واضح ھے کہ اگر بفرض محال حدیث ثقلین سے ھمارے آئمہ ھدیٰ علیھم السلام کی امامت و خلافت ثابت نہ ھو تو کم از کم ان کے قول و فعل کی حجیت ضرور ثابت ھوتی ھے۔

رابعاً: مذکورہ روایت میں امام(ع) فرماتے ھیں: ”فتصدقہ فی کل ما قال“

یعنی جائز نہیں ھے کہ کہ کسی کو معین کردو۔ اوروہ جو کچھ کہے اس کی پیروی کرتے رھو۔البتہ اس مطلب کا مسئلہٴ تقلید سے کوئی تعلق نہیں ھے کیونکہ مقلد اپنے مجتھد کی ھربات میں تقلید و پیروی نہیں کرتا ۔ مثلاً اصول دین میں تقلید باطل ھے اور فروع دین میں بھی ضروریات اور قطعیات میں تقلید صحیح نہیں ھے۔ مثلاً خود نماز ، روزہ، زکات، خمس، حج اور جھاد کے واجب ھونے یا مثلاً شراب ، جوا، مردار، غصب، ظلم اور دوسرے ان امور کے حرام ہونے میں جو دین اسلام میں سب کے لئے قطعی ویقینی ھیں، تقلید ضروری نہیں ھے۔ فرض کرلیں کہ کوئی مجتھد یہ کہے کہ نماز واجب نہیں ہے یا شراب نوشی جائز ہے تو اس کی بات قابل قبول نہیں ہوگی۔

اسی طرح موضوعات میں بھی تقلید نا جائز ہے یعنی اگر مجتھد کہے کہ یہ پانی شراب نہیں ھے یا یہ کپڑا فلاں شخص کا مال ھے تو اس کی بات پر عمل کرنا واجب و لازم نہیں ھے بلکہ ایسے مسائل میں مجتھد اور دیگر افراد میں کوئی فرق نہیں ، سب برابر ہیں۔ لہذا مجتھد کا قول بعض امور و مسائل میں حجت اور معتبر ھے۔ اور وہ فروع دین کے بعض وہ مسائل ھیں جن کا مقلد کو علم نہیں اور علماء کے نزدیک مورد اختلاف ھیں۔ اور ضمناً یہ بھی معلوم ھونا چاھئے کہ جو لوگ تقلید کے حرام ھونے کا فتویٰ دے کر لوگوں کو تقلید نہ کرنے کی دعوت دیتے ھیں آیا وہ خود فتویٰ نہیں دے رھے ھیں ؟ آیا لوگوں کے لئے ان کی گفتار کی پیروی اور تقلید کرنا غلط نہیں ھے؟ اگر غلط ھے تو لوگوں سے کیوں نہیں کہتے کہ ھماری گفتار کی تقلید و پیروی کرنا بھی حرام ھے۔ ہماری بات نہ ماننا۔