مھر و محبت

وکیپیڈیا سے

مہر و محبت کی کمی

عورت اپنے بدن کے لحاظ سے اور بیالوجی و ظائف کے ماتحت خاص وضع کی حامل ہوتی ہے ۔ صناع ازل نے اس کو مخصوص مصالح سے آراستہ پیراستہ کیا ہے اور اس میں یہ قوت ودیعت کی گئی ہے کہ اپے فرائض باقاعدگی کے ساتھ انجام دے سکے ، عورت کی جسمانی قابلیت اور مادی خصوصیت نے اس میں ایک خاص قسم کی فکری وعاطفی کیفیت پیدا کردی ہے جس کی بناء پر اس میں اپنا اہم فریضہ بچے کی پرورش و نگہداشت بجالانے کی خوبی موجود ہے ۔ بچوں کی خواہشات ، فطری نقاضے عورت کے دامن میں آکر محفوظ ہوجاتے ہیں ، کوئی دوسری چیز عورت کی جگہ پر نہیں کرسکتی ،نرسنگ ہوم اور بورڈنگ ہاؤس چاہے کتنے ہی فطری لحاظ سے بنائے گئے ہوں بچوں کے احساس و عواطف کی تکمیل نہیں کرسکتے ۔ جو بچے ماں کے سايہ عاطفت و محبت سے محروم رہتےہيں اورماں کی مخصوص شفقتوں سے دور رہتے ہيں ۔ وہ بہت سے روحی و ذہنی الجھنوں کے شکار ہوجاتے ہيں ۔ لیکن مغرب کی عورت گھر سے باہر کام کرنے کیوجہ سے اپنے فطری حدود سے باہر قدم رکھتی ہے اور اپنی فطری اور عظیم طاقت سے محروم ہوکر فطرت و طبیعت کے اصول کو توڑ دیتی ہے ۔

یہ بالکل درست ہے کہ نہ کمیونزم اور نہ ہی مادی مغربی تمدن فطرت بشری کو بدل سکتے ہيں ان لوگوں نے تو عورت کو اس کے اصلی مقام سے علیحد کردیا ہے ۔ اوریہی چیز غیر متناہی اخلاقی و اجتماعی و روحی مفاسد کا سبب بنی ہے ۔ مہر مادری سے محروم بچوں میں جو ذہنی گرہیں پڑجاتی ہیں ان کی اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے : حن لوگوں نے بچوں کی پرورش کو ذریعہ معاش بنایا ہےاوران کو تربیت اطفال کا کوئی ذوق و شوق نہيں ہے وہ بچوں کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اوران کے بس سے باہر کی بات ہے کہ وہ بچوں کے عواطف و ہیجانات کی صحیح رہنمائی کرسکیں ۔ (رواں شناسی کودک صفحہ 297 )

ڈاکٹر اے الیکسس کارل مشہور دانشمند یورپی خاندان کی غلطی و اشتباہ کو ظاہر کرتے ہوئے کہتا ہے آج کے معاشرے کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ بچپنے ہی سے نرسنگ ہوم اور بورڈنگ ہاؤس کو ماں کی گودکاقائم مقام کردیا ہے یہ چیزدر حقیقت عورتوں سے خیانت کے مرادف ہے جومائیں اپنے بچوں کو بورڈنگ ہاؤس کے سپرد اس لئے کرتی ہیں تاکہ ملازمت ، ادبی ، ہنری مشغولیت باقی رکھ سکیں یابرج و سنیما بینی پر اپنا وقت صرف کرسکیں ،ان کایہ اقدام بچوں کو گھریلو ماحول سے بہت کچھ سیکھنے سے محروم کردیتا ہےاورگھر کی چہل پہل ختم ہوجاتی ہے گھریلو ماحول میں پلنے والے بچوں کارشد و فکر شب و روز مدارس کے بچوں میں رہنے والے بچوں سے زیادہ ہوتاہے ۔ بچے بنیادی طور پر اپنے آس پاس کے ماحول سے متاثر ہوتے ہيں ۔جسمانی عاطفی روحانی خصائص بھی اپنے ماحول ہی سے حاصل کرتے ہیں ۔ اسیلئے اپنے سے کمسن بچوں کے مقابلے میں کم یاد کرتے ہیں اور جب فیل ہوجاتے ہیں تواس کا صحیح احساس نہیں کرپاتے ، ہرفرد کی صحیح پرورش گھریلو ماحول کی توجہ پرموقوف ہوا کرتی ہے مستقبل کی بنیاد یہی ماحول ہواکرتا ہے ۔(انسان موجودناشناختہ صفحہ 260 )

متمدن معاشرے کے عورتوں کی رنجیدگی اورخاندانی بےسروسامانی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اصلی فرائض کو چھوڑ کر ، خارجی کاموں میں مشغول ہوجاتی ہیں ۔ امریکہ کے اندر عدالتی طلاق لینے والی عورتوں میں 25 فیصد ایسی عورتیں ہیں جو روحی بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ ہرسال ڈیڑھ لاکھ بچے والدین کے آپسی اختلاف کے بھینٹ چڑھ جاتے ہيں ۔

آج امریکی عورت خستہ ہوکر گھر پلٹتی ہے ۔ یہ بات تجربہ شدہ ہے کہ شہری معاشرے میں اس کی تلاش و جستجو سوائے روحانی بیماری کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتی۔لیکن واقعی چیز یہ ہے کہ امریکہ کی عورت گھر کے اندر بھی رنجیدہ ہے ۔ ملیونوں آدمی گھربیٹھے کھاتے ہیں اور پھر روحانی ماہرین کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ وہ سب خستہ ہیں اور یہ خستگی معاشرے کی شدید فعالیت کی پیداوار ہے ۔ یعنی ایسے معاشرے کی جو صرف مشینی بن گیا ہے اور چوبیس گھنٹے ہیا ہو شور و غل میں گرفتار ہے ۔

ڈاکٹر جارج مالی کہتا ہے : جوانوں کی بہت سی بیماریاں بچپنے کی پیداوار ہیں اور اس کی ذمہ داری ان کی ماؤں پر آتی ہے ۔ جھوٹ بولنا، بے گناہ جانوروں کو مارڈالنا ، معاشرے کے اصول کی خلاف ورزی کرنا ، یہ ساری باتیں صرف اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ بچپنے میں ماؤں نے ان باتوں سے روکا نہیں ! امریکی عورتوں کا یہ مختصر ساتجزیہ ہے ۔ (اطلاعات ہفتگی شمارہ 1206 نقل از منابع فارجی )

والدین اور بچوں کے آپسی روابط بہت کمزور ہوگئے ہيں ۔ بچے والدین کی ناکافی محبت ملنے کی وجہ سے اپنے والدین کے لئے کسی قسم کا احسا س نہیں رکھتے ۔ اکثر اتفاق ہوتا ہے کہ افراد خاندان سالہا سال ایک دوسرے سے ملاقات نہيں کر پاتے ، والدین کا طور طریقہ بڑے بچوں کے ساتھ خصوصا جو اٹھارہ سال کے ہوگئے ہيں نہایت نامعقول ہے ۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے جہاں بلوغ کی منزل میں پہنچے والدین ان کو اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں اور اگر کسی کے ما‎ں باپ بچوں کو ساتھ رکھنے پر تیار بھی ہوئے تو ان سے روزآنہ کا خرچ وصول کرلیتے ہیں حد یہ ہے کہ اگر کبھی کسی بچے سے کوئی برتن ٹوٹ جائے تووالدین اس کو مجبور کرتے ہیں کہ بازار سے دوسرا خرید کرلائے اوراس کی جگہ پر رکھے ۔اس قسم کا برتاؤ بالخصوص لڑکیوں پر بہت برا اثر ڈالتا ہے اور وہ لڑکیاں عموما تنہائی میں رہنے کو ماں باپ کے گھر رہنے پر ترجیح دیتی ہیں اور اسی تنہائی اور خاندان سے دوری اورمربی کے نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں سے غلط قسم کے تعلقات پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔

لوگوں کے دوستانہ روابط بہت ہی سرداور گہرے و بنیادی عواطف سے خالی ہیں قلبی محبت ــــــــــــــ جو ایک رابط عاطفی اورروشنی بخش ہے ــــــــــــــ وہ مشینوں کے پہیوں میں گم ہوچکی ہے ایثار ، درگزر، ہمدردی نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے اور شاید دوستوں کی تعداد انگلیوں پر شمار کرنے کے قابل ہے ۔

متمدن دنیاسے اپنی نئی تشکیلات اورمنظم معاشرے کی خاطرانسانیت کے سوتوں کو لوگوں کے دلوں سے خشک کردیا ہے اور یہ سوتے خشک و بے جان قالبوں میں پہونچ گئے ہيں ۔لوگوں کا تعاون قانونی ہے قلبی لگاؤ کی بنا پر نہیں ہے اگر کوئی کسی مشکل میں گرفتار ہوجائے تو دوسرے اس کی گرہ کشائی کی کوشش نہیں کريں گے ۔اس کے لئے معمولی سا مادی نقصان بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور نہ اپنے کو کسی کی خاطر کسی مشکل میں ڈالنا پسند کرتے ہیں ۔ہاں اگر قانون سے مجبور ہوں مثلا پولیس کا خطرہ ہوتب تو تعاون کریں گے ۔لیکن کسی کی مدد اخلاقی فریضہ کے عنوان پر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

ایک مرتبہ میں (مصنف کتاب ) اسپتال میں بطور مریض تھا ۔ حالانکہ میرے ملاقاتی بہت کم تھے لیکن اس کے باوجود ان تمام جرمنی بیماروں سے کہیں زیادہ تھے جو میرے وارڈ میں تھے اور اس بات سے اسپتال والوں کو بہت تعجب تھا کیونکہ جرمنی میں تو لوگ اپنے خاندان والوں کی عیادت کو بھی اسپتال نہیں جاتے یہاں میں ایک دلچسپ واقعہ زندہ شاہد کے عنوان پر آپ کے لئے نقل کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ متمدن لوگوں میں کتنی محبت ہوتی ہے چند سال پہلے جرمن یونیورسٹی کا ایک استاد ہمبرگ کے جمعیت اسلامی کے سرپرست کے سامنے مشرف باسلام ہوا ۔ کچھ مدت کے بعد وہ نو مسلم کسی بیماری کی بناء پر ایک اسپتال میں داخل ہوا جمیعت اسلامی کے سرپرست نے اس کی عیادت اسپتال جاکر کی ۔ لیکن بالکل ہی خلاف توقع نو مسلم کا چہرہ بہت افسردہ و غمگین تھا ۔ سرپرست جمیعت نے پوچھا کہ آپ اتنے پژمردہ کویں ہیں ؟ اور اب تک وہ نو مسلم پروفیسر بالکل خاموش تھا ۔ سرپرست کے سوال پر اس نے اپنی زبان کھولی اور اپنا افسوس ناک واقعہ سنانا شروع کیا ۔اس نے کہا آج میرے بیوی بچے میری عیادت کو آئے تھے ان کو اسپتال میں اطلاع مل چکی تھی کہ میں سرطان کی بیماری میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔جب وہ مجھ سے رخصت ہوکر جانے لگے تو کہنے لگے آپ سرطان کی بیماری میں مبتلا ہوکر موت کے دروازے پر پہنچ چکے ہیں اب آپ چند دن سے زیادہ کے مہمان نہیں ہیں ۔ہم آخری بار آپ سے رخصت ہورہے ہیں ۔اب اس کے بعد آپ کی عیادت کو نہیں آسکتے ! آپ سے معذرت خواہ ہیں ۔ پروفیسر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا : میری پژمردگی اوررنجیدگی اس لئے نہیں ہے کہ امید کے دروازے میرے لئے بند ہوچکے ہیں اور میں اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہوں ، بلکہ زن و فرزند کے اس غیر انسانی رویہ سے مجھے شدید ذہنی تکلیف پہنچی ہے ۔سرپرست ــــــــــــــ جو اس واقعہ سے خود بھی بہت متاثر ہوچکے تھے ــــــــــــــ نے کہا چونکہ اسلام میں بیمار کی عیادت کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اس لئے مجھے جب بھی فرصت ملے گی آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوں گا اوراپنے دینی فریضہ کو پورا کروں گا ۔

بیچارے مریض کی حالت رفتہ رفتہ خراب ہوتی گئی اورچند دن کے بعد اس نے اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کردی ۔اس کے دفن و کفن کی خاطر کچھ مسلمان اسپتال گئے اور اس کی میت قبرستان لے آئے ۔مگر قصہ یہاں پرختم نہیں ہوتا (ذرا آگے پڑھئے ) وہ لوگ میت کو دفن کرنے جاہی رہے تھے کہ ناگہان ایک نوجوان غصے میں بھرا ہوا جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوا قبرستان آیا اور آتے ہی پوچھنے لگا ! پروفیسر کا جنازہ کہاں ہے ؟ لوگوں نے پوچھا آپ کی مرنے والے سے کوئی رشتہ داری ہے ؟ جوان نے کہا ارے رشتہ داری ! بھائی میں مرحوم کا بیٹا ہوں ،پروفیسر کے مرنے سے چند دن قبل میں نے ان کی باڈی 60 روپئے میں اسپتال والوں کے ہاتھ بیچ دی تھی تاکہ اسپتال میں ان کا بدن چیڑا پھاڑا جاسکے ۔ نوجوان نے بہت زور لگایا مگر مسلمانوں نے میت اس کے حوالے نہیں کی مجبوراوہ خاموش ہوگیا باتوں باتوں میں اس سے پوچھا گیا تم کیا کام کرتے ہو ۔اس نے کہا صبح تو ایک کارخانے میں کام کرتا ہوں اور سہ پہر کو کتوں کی سجاوٹ کا کام انجام دیتا ہوں !!! یہ ایک تلخ حقیقیت ہے اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ متمدن دنیا میں مہر و محبت کی کتنی کمی ہے ۔!

اس زمانے میں اخلاقی فضائل کی کمی او معاشرتی مفاسد کو دیکھتے ہوئے اس بات کا انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ بشریت پیچھے پاؤں پھر حجری دور کی طرف پلٹ رہی ہے ۔ بڑے بڑے مفکرین اس تلخ حقیقت کے معترف ہیں اور اس کی چارہ جوئی کی فکر میں ہیں اور ان حالات سے بہت رنجیدہ ہيں ۔ انھوں نے درد کو پہچان لیا ہے اوروہ یہ چاہنے لگے ہیں کہ اس خود سری ، بے راہ روی کاخاتمہ کیا جائے اورایمان و فضیلت کی بنیاد پر ایک نئی دنیا ایجاد کی جائے ۔

جولوگ اس قسم کی زندگی میں ڈوب گئے ہيں اب ان کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ یہ تو ایک بالکل خالی خولی اور کھوکھلی زندگی ہے ۔یہ کبھی بشریت کو شاہراہ سعادت تک پہنچاہی نہیں سکتی ،اب ذرا اس حقیقت کا اعتراف موجودہ امریکہ کے رئیس جمہور یہ کی زبانی سنئے جو قسم کھاکے کہتے ہیں : ہم اپنے کو مادی لحاظ سے بہت مال دار پاتے ہیں لیکن روحانیت کے لحاظ سے صفر ہيں ہم چاند پر پہنچ گئے لیکن زمین میں پراگندگی کے شکار ہيں ہم جنگ میں گرفتار ہیں اب صلح چاہتے ہيں نفاق ختم کرکے اتفاق چاہتے ہیں اپنے گردوپیش کھوکھلی زندگی دیکھ رہے ہیں اب بھر پور زندگی کے خواہش مند ہیں ۔ معنوی بحران ــــــــــــــ جس میں ہم آج اسیر ہوچکے ہیں ــــــــــــــ کا معنوی جواب چاہتے ہيں اوراس کا جواب پانے کے لئے ہم کو خود اپنے کو دیکھنا ہوگا اگر ہم اپنے وجدان کی آواز کو کان دھرکے سنیں گے تو معلوم ہوگا کہ اب سادہ اور اساسی چیزوں کی ضرورت ہے اب عفت عشق و مہربانی کی اہمیت کا اعتراف کرنا ہوگا ۔

فرانس کے مشہور دانش مند ڈاکٹر " الکسس کیرل " لکھتے ہیں ہم ایسی دنیا چاہتے ہيں جس میں ہرشخص اپی ضروریات کوپورا کرسکے ۔ اقدار مادی و معنوی آپس میں جدانہ ہوں اب ہم کو سمجھنا پڑے گا کہ کس قسم کی زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہيں کہ زندگی کا راستہ قطب نما اور ہادی کے بغیر بہت خطرناک ہے ۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ اس خطرے نے بھی ہم کو عقلائی زندگی کی تشکیل کے اسباب و وسائل کے جستجو پر آمادہ نہیں کیا ۔ یہ واقعہ ہے کہ اس خطرے کی اہمیت کو سمجھنے والے ابھی بہت کم ہیں ۔

آج لوگوں کی زیادہ تر تعداد اپنی خواہشات کی پیروی کرتی ہے اور ٹیکنالوجی نے جو مادی آسانیاں پیدا کردی ہیں انھیں میں مگن ہے ۔ جدید تمدن نے جو سہولتیں فراہم کردی ہیں ان سے آج کی دنیا نہ تو چشم پوشی کرنے پرتیار ہےاورنہ ان آسانیوں سے ہاتھ اٹھانے پر تیار ہے ۔جس طرح پانی دریاؤں، سمندروں میں رواں دواں ہے ۔اسی طرح ہماری زندگی بھی خواہشات کے نشیب میں بہتی جارہی ہے اورہر قسم کے فساد و پستی کی طرف بہہ نکلتی ہے جیسا کہ تکمیل خواہشات و تفریحات اورنفع اندوزی کی طرف مائل ہے ۔

ہم اپنی تشکیلات کو بلند کرنے کے بجائے اس کو نئے نئے آئیڈیوں کو پورا کرنے پر قادر نہیں ہے ۔آج کا متمدن انسان مادے کی اولیت کا قائل ہوچکا ہے اورمعنوی اولولیت کو اقتصادیات پربھینٹ چڑھا چکا ہے ۔

ہم آج کی دنیا میں جسم و جان کی اصلی ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر ٹیکنا لوجی ترقیوں کی طرف پیش رفتہ کررہے ہیں ہم تومادی دنیامیں غوطہ لگانے والے ہیں لیکن ہم نے اپنے کو مستقل سمجھ لیا ہے ہم یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ زندگی کی بقاء کے لئے ہواو ہوس کی پیروی کرنے کے بجائے ہم کو چیزوں اور اپنی فطرت کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔ مدت ہوگئی کہ متمدن بشریت اس گرداب میں پھسلتی جارہی ہے اورڈوبتی ہی چلی جارہی ہے ۔

انسان مارک سیزم اور لبرالیزم (آزاد منشی )کامشینی مخلوق ہوگیا ہے انسان کو صرف ایجادات و اختراعات کے لئے نہيں پیدا کیا گیا بلکہ آغاز آفرینش سے جمال مذہبی کے عشق اور وقت فکر ، فداکاری کے لئے پیدا کیاگیا ہے ۔اگر انسان کو صرف اقتصادیات کی تکمیل کے لئے منحصر کیا جائے تواس کامطلب یہ ہوگاکہ اس کے بزرگ حصے کو اس سے کاٹ دیاگیا ہے اس لئے ماننا پڑے گا کہ مارکسیزم اور لبرالیزم یہ دونوں چیزیں فطری میلانات کو تباہ و برباد کرنے والی ہیں ۔(راہ ورسم زندگی صفحہ 15 و 34 )

اگر آج کی دنیا اس انحطاط و مفاسد کی جڑوں کو کھودنا چاہتی ہے تو پھر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہيں ہے کہ انبیاء، خدا کے آسمانی تعلیمات پرعمل کرنے لگے ۔جی ہاں جب تک فضائے عقل بشر کو شہوتوں کاطوفان تاریک بنائے رہے گا اور اس کی گندگیاں انسانی پیروں کی بیڑیاں بنی رہیں گی اس وقت تک بشریت کے نجات کی کوئی امید نہيں ہے ۔اب تو صرف یہی طریقہ ہے کہ خفتگان وادی ضلالت کے افکار میں ایک انقلاب پیدا کیا جائے ۔مختصر یہ ہے کہ جب تک معنوی ارزش ، واقعی انسانیت کی طرف باقاعدہ توجہ مبذول نہ کی جائے گی ۔ بشر کی افق زندگی پر واقعی سعادت کاقیافہ نمودار نہيں ہوسکے گا۔