بنو عباس

وکیپیڈیا سے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا حضرت عباس کی اولاد۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے پوتے محمد بن علی بڑے سمجھدار اور دور اندیش انسان تھے۔انھوں نے اہل بیت کی حمایت کے نام پر بنو امیہ کے خلاف ایک خفیہ تحریک چلائی۔ اس تحریک کو بنو امیہ کے مظالم اور باہمی خانہ جنگی نے تقویت پہنچائی۔ اور تھوڑے عرصے میں بہت بڑی جمعیت منظم ہوگئی۔ انھی دنوں ابومسلم خراسانی منظر عام پر آیا۔ اس نے تمام ایران و خراسان کو بنو امیہ کی حکومت کے خلاف اکسایا جس سےمحمد بن علی کی قوت میں اضافہ ہوا۔ 126ء ہجری میں محمد بن علی کے فوت ہونے پر ان کے بیٹے ابراہیم جانشین ہوئے۔ انھوں نے ابومسلم خراسانی کو اپنی جماعت کا امیر مقرر کیا تھا۔ ابوالعباس نے ابومسلم وغیرہ کی مدد سے اموی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور بنو عباس کی خلافت قائم کی۔

بنو عباس کی حکومت 750ء سے 1258ء تک قائم رہی۔ اس عرصے کوتین مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ 132ھ سے 247ھ تک کا ہے۔ اس میں بنی عباس کے دس خلفا کا زمانہ شامل ہیں جو بہت دوراندیش اور اعلیٰ پائے کےمدبر تھے۔ یہ بنو عباس کے عروج کا زمانہ ہے۔ دوسرادور 247ھ سے شروع ہوتا ہے۔ اسے زوال کا دور کہنا مناسب ہے۔ اس میں سلطنت کا کاروبار امیرالامراء کی مرضی کے مطابق ہوتا تھا۔ خلفا بالعموم کمزور تھے۔ کوئی دو سو سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ تیسرا دور سلاجقہ کے غلبے کا ہے۔ اس دور میں خلیفہ برائے نام ہوتا تھا۔ حکومت کی باگ دوڑ سلجوقی ترکوں کے ہاتھ میں تھی۔ 1258ء میں ہلاکو خان بغداد میں داخل ہوا اور آخری خلیفہ مستعصم باللہ کو قتل کرکے بنو عباس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس خاندان میں 37 فرمانروا ہوئے۔ ان کا شجرہ نسب رسول اللہ (ص) کے چچا حضرت عباس سے ملتا ہے۔ ان کا دارلحکومت بغداد تھا۔ خلفائے بنو عباس کے نام اور تاریخ جلوس حسب ذیل ہے۔

[ترمیم کریں] بنو عباس کے خلفا

ابوالعباس سفاح

المنصور

المہدی

الہادی

ہارون الرشید

امین الرشید

مامون الرشید

المعتصم

الواثق

المتوکل

المنتصر

المستعین

المعتز

المہتدی

المعتمد

المعتضد

المکتفی

المقتدر

القاہر

الراضی

المتقی

المطیع

الطائع

القادر

القائم

المقتدی

المستظہر

المسترشد

الراشد

المقتفی

المستخد

المستضی

الناصر

الظاہر

المستضر

المستعصم