روزہ اور تقوی

وکیپیڈیا سے

روزہ (۵)

پچھلے مضامین کے لیئے روزہ یا روزے سرچ کریں

اس درس میں ہم اس بارے میں بات کریں گے کہ کس طرح انسان تقوی کی مدد سے اپنی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے؟ اسکے علاوہ بعض اہم موضوعات کے بعد روزہ کی گفتگو اس مرحلہ پر اختتام پر پہنچے گی۔

تقوي اور غلبه مشكلات  : جیسا کہ بیان کیا گیا کہ تقوی انسان کے اندر پیدا ھونے والی ایک معنوی قوت کا نام ہے جو نہ صرف یہ کہ انسان کو نقائص اور گناہ سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ اسی قوت کی مدد سے انسان اپنی روزمرہ مشکلات پر بھی غلبہ پا سکتا ہے ۔ انسان جس عالم میں زندگی گزار رھا ہے وہ عالم طبیعت ومادہ ہے اور عالم مادہ عالم تزاحم واختلاف ھے۔ اس عالم میں ایک طرف خود طبیعت کے تقاضے مختلف ہیں اور دوسری طرف انسان کے میلانات، رجحانات اور تقاضے مختلف ومتضاد ہیں اور ہر ایک اپنے تقاضوں کی تکمیل چاہتا ھے۔ لھذا انسان کو طرح طرح کی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ان مشکلات کی سنگینی اور اپنی ناتوانی کو دیکھتے ھوئے انسان کو ایک ایسی قوت سے وابستہ ھونے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہ ہر مشکل پر غلبہ پا سکے ۔ اس کے لئے انسان اگرچہ طرح طرح کی قوتوں کو آزماتا ہے لیکن نتیجہ میں اسے عجز و ناتوانی کے سوا کہیں کچھ نظر نھیں آتا کیونکہ منبع قوت، ذات خدا ہے اورپھر جب وہ خدا کی طرف رخ کرتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے -”ایّاک نستعین“ پروردگار ھم صرف تجھ سے مدد چاھتے ہیں تو خدائے کریم اسکی معجزاتی نصرت کرنے کے بجائے نصرت کے ایک قانون اور نظام (System) کی طرف راھنمائی کر دیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ زندگی کی ہر مشکل پر غلبہ پاتا رہے ۔لھذاارشاد فرمایا ”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصّبْرِ وَالصَّلَواۃِ“ صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو “۔نماز سے اس لئے کیونکہ بڑی قوتوں سے ارتباط انسان کی چھوٹی مشکلات کو حل کر دیتا ہے اور خدا سے بڑی کوئی قوت نھیں ہے جس سے ارتباط کا بھترین طریقہ نماز ھے،اورصبر سے اس لئے مدد حاصل کرو کیونکہ صبر انسان کے اندر قوت ،استقامت ،پائیداری اور استحکام پیدا کرتا ہے ،بلکہ صبر کے معنی ھی استقامت اور پائیداری کے ہیں۔ یہ استقامت کبھی ظلم کے مقابلے میں ہے ۔ کبھی امتحانات و مشکلات کے مقابلے میں اور کبھی علم و فضل وکمالات کو حاصل کرنے کے لئے صبر واستقامت کی ضرورت پڑتی ھے۔ روزہ کا ایک راز یہ ہے کہ روزہ انسان کے اندر صبرو استقامت پیدا کرتاھے۔صبر کے مصادیق میں سے ایک مصداق روزہ ہے اسی لئے اس آیت ”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃ ِ“ میں صبر کی تفسیر روزہ سے کی گئی ھے۔ اس مقام پر فلسفہ روزہ یعنی تقوی کے معنی میں اور وسعت پیدا ھو جاتی ہے ۔اب روزہ کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک ایسی معنوی قوت پیدا ھو جاتی ہے جس میں شدید استقامت اور پائیداری بھی پائی جاتی ہے اور اسکے بعد انسان ہر مشکل سے باآسانی عبور کر جاتا ھے۔روزہ انسان کو معنوی اعتبار سے اتنا عظیم کر دیتا ہے کہ مادی مشکلات اس کے تکامل کے سفر میں رکاوٹ ایجاد نھیں کر سکتیں ۔

كرم الهي كا دسترخوان:

روایات میں  ماہ رمضان کو ”شھراللہ“یعنی ماہ خدا سے تعبیر کیا گیا ہے اور شھراللہ میں  داخل ھونے والے کے لئے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ انسان اس سے قبل دو مھینوں  یعنی رجب و شعبان جنھیں  ماہ امیرالمومنین  علیہ السلام وماہ رسول خدا(ص) یا شھر ولایت وشھر رسالت سے تعبیر کیا گیاہے میں  اپنے آپ کو تیارکرے تاکہ شھراللہ میں  وہ ضیافت پروردگار میں  جانے کے لائق ھو جائے ۔

رسول اکرم(ص) نے فرمایاھے:”اَیُّھاالنَّاسُ اِنَّہ قَداَقْبَلَ اِلَیْکُمْ شَھرُاللّہ وَقَدْ دُعِیتُمْ فِیہ اِلَی ضِیَافَۃِاللّہ خداکامہینہ آگیا ہےاور اس مہینہ میں تمہیں خدا کی ضیافت کے لئے بلایا گیا ہے۔ الہی دسترخوان پر انسان کو جو کچھ بھی ملے گا وہ خدا کے کرم کے سائے میں ھوگا ۔خدا کی ہر عطا کریمانہ ہے اور اس حد تک کریمانہ ہے کہ اسکی لاتعداد نعمتیں انسان استعمال کرتا ہے اور یہ محسوس بھی نھیں کرپاتا ہے کہ یہ نعمتیں کہاں سے آرہی ہیں حتی کہ نادانی میں ا نھیں کسی دوسرے کی طرف منسوب کر دیتا ہے اوراسی کا شکر ادا کرتا ہے ۔وہ اپنے کریم سے اتنا غافل ہے کہ واسطوں کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن منبع نعمت سے بے خبر ہے ،جیسے بارش ھونے پر کوئی بادلوں کا شکریہ ادا کرے لیکن سمندر سے بے خبر ھو ۔کرم الھی کا عالم یہ ہے کہ اسکی کتنی مادی اور معنوی نعمتیں انسان کی خدمت میں لگی ھوئی ہیں اور انسان پوری زندگی ان نعمتوں میں گزار کر بھی یہ نھیں سمجھ پاتا کہ ھم ا ن سے بھی استفادہ کررہے تھے،یہ کرم کی معراج ہے ۔ ماہ رمضان میں انسان مہمان خدا ھوتا ہے اور میزبان مہمان کے سامنے وہی پیش کرتا ہے جو اسکے پا س موجود ھوتاھے۔ خدا کے خزانے میں ناقص ، آلودہ اور پست چیزیں نھیں ہیں ،اسکے خزانے میں جس چیز کی فراوانی ہے وہ کمالات ہیں اور وہ ایسا میزبان بھی نھیں ہے جسکی عطا میں کسی طرح کے بخل کا شائبہ ھو لھذا اس مبارک مہینے میں ا نسان کو اختیار ہے کہ جتنے کمالات چاھتا ہے کرم الھی کے دسترخوان سے حاصل کرلے۔

قرآن اور انسان: کرم الھی کا دسترخوان قرآن ہے ”اَلقُرَآنُ مَآدُبَۃُ اللہ اس کتاب میں انسانی کمالات کے تمام نسخے موجود ہیں ۔یہ کتاب اسی مہینے میں نازل ہوئی یعنی اس دسترخوان کو اسی مہینے میں بچھایا گیا تاکہ مہمان کی ضیافت کا سامان فراھم ھو جائے اور جس شب میں قرآن نازل ھوا اسی شب یعنی شب قدر میں بنی آدم سے متعلق تمام امور کے فیصلے ہوتے ہیں ۔اسی شب میں انسانی اور غیر انسانی مقدرات طے ہوتے ہیں ۔ ”تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُِ وَ الرُّوحُ فِیْھا بِاِذْنِ رَبِّھمْ مِنْ کُلِّ اَمْر اس شب میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے ھاتھوں سے اپنی تقدیر لکھے اور جو کچھ چاھتا ہے الھی دستر خوان سے حاصل کرلے --۔ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں ایک بدو عرب آیا اور اس نے قرآن سننے کی درخواست کی ۔ رسول اللہ (ص) نے کسی صحابی سے قرآن سنانے کو کہا۔ اس صحابی نے سورہ”الزّلزلۃ “سنایا جس میں یہ آیت موجود ہے ”فَمَن یعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرۃٍٍ خَیراً یَّرَہ وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّا ًیَرَہ جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا۔یہ آیت سن کر وہ واپس پلٹ گیا ،صحابی کو حیرت ھوئی کی وہ صرف اتنا ھی قرآن سننے کے لئے آیا تھا !صحابی کی حیرت کو دیکھ کر رسو ل ا للہ نے فرمایاکہ یہ شخص فقیہ بن کر واپس پلٹا ہے یعنی اس ایک آیت نے اسکی زندگی میں انقلاب برپا کر دیاہے کیونکہ اب وہ اس یقین کے ساتھ پلٹ رھا ہے کہ اس کا ہر عمل دیکھا اور محفوظ کیاجا رھا ھے۔ اگر ایک آیت ایک جاھل عرب کو فقیہ بنا سکتی ہے تو پورا قرآن انسانی معاشروں میں کتنا بڑا انقلاب لاسکتا ہے ،لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی ہم نے شاید قرآن کی ایک آیت کو بھی اپنی عملی زندگی میں عملی نہیں ہونے دیا ھے۔

محبوب كا وصال: مہمان اور میزبان کے درمیان متعدد قسم کے رابطے ھو سکتے ہیں لیکن اگر یہ رابطہ عشق و محبت کا رابطہ ھو تو ایسی مھمانی اور میزبانی میں شیرین ترین و لطیف ترین نکتہ عاشق ومعشوق کی ملاقات اور ایک دوسرے سے ھمکلام ھونا ھوتا ھے۔عشق کی ملاقات میں مقصود اصلی خود معشوق ھوتا ھے،نہ کہ اسکی عطا کردہ نعمتیں اور اس ملاقات میں عاشق و معشوق کی سب سے بڑی تمنا یہ ھوتی ہے کی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ ھمکلام رھیں ۔ روزہ کے فلسفہ و اسرار میں سب سے عمیق فلسفہ و سر اپنے معبود اور معشوق سے ملاقات کرنا اور ھمکلام ھونا ہے ۔ یہ انسانیت کا بلندترین مقام اور ایک انسان کے لئے بھترین لذت ھے۔ اس لذت تک پہنچنے کے لئے اس نے روزہ کے ذریعے اپنے آپ کو تمام حیوانی اور شھوانی لذتوں سے دور کیا ہے ۔ روزہ رکھ کر اب وہ ذھنی و تخیلی لذتوں سے آزاد ھو چکا ہے اب اسے غیبت کرنے یا سننے میں لذت کے بجائے کرب واذیت کا احساس ہوتا ھے۔ اب اس نے اپنی نظر کی تطھیر کر لی ھے،اب وہ کھانے پینے کی لذتوں سے بالاتر ھو چکاہے اس لئے کہ اب وہ وصال محبوب کی لذت سے آشنا ھو چکا ھے۔ روایت میں ہے ” لِلصَّائِمِ فَرحَتَان حِیْنَ یَفْطُرُوَحِینَ یَلْقیٔ رَبَّہ عزّ و جلّ روزہ دار کودو مواقع پر فرحت و لذت کا احساس ھوتا ہے ۔ایک افطار کے وقت کہ خدا نے توفیق دی اورروزہ مکمل ھو گیا،مریض نھیں ھوا ، سفر در پیش نھیں آیا، شیطان نے مجھ پر غلبہ نھیں کیااور خدا نے کسی دوسرے امر میں مشغول نہیں کیا اس لئے کہ خدا ہر ایک کو اپنی بارگاہ میں آنے کا موقع نھیں دیتا، وہ جنھیں اپنی بارگاہ کے لائق نھیں سمجھتا انھیں دیگر امور میں مشغول کر دیتا ہے ، کبھی سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے توکبھی کثرت سے نعمتیں دے کر مشغول کر دیتا ھے۔ روزہ دار کی خوشی کا دوسرا موقع اپنے پروردگار کی ملاقات کے وقت ہے جب وہ خدا سے ھمکلام ھوتا ھے۔ یہ ایک انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ھے۔روز قیامت ایک گروہ کے لئے سب سے بڑا عذاب یہ ھو گا کہ ”لَا یُکَلِّمُھُمُ اللہ یَومَ الْقِیَامَۃِ خدا ان سے کلام نھیں کرے گا۔ روز ہ دار کبھی قرآن پڑھتا ہے تاکہ خدا اس سے ھمکلام ھو، کبھی دعا کرتا ہے تاکہ وہ خدا سے ھمکلام ھواور کبھی وہ کچھ بھی نھیں کرتا،زبان بھی خاموش ھوتی ہے لیکن پھر بھی خدا سے ھمکلام ھوتا ہے کیونکہ خدا سے ھمکلام ھونے کے لئے زبان اور آواز کی ضرورت نھیں ھے۔ اگر انسان اس نکتے کو اچھی طرح درک کر لے کہ قرآن کلام خدا ہے اور وہ جب قرآن پڑھتا ہے خدا اس سے محو کلام ھوتا ہے تو پھر وہ قرآن کو فقط ثواب کے لئے نھیں پڑہے گابلکہ قرآنی آیات کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کرے گا کیونکہ ایک انسان جب اپنے محبوب سے گفتگو کر رھا ھوتا ہے تو وہ اپنے پورے وجود سے اسکی باتوں کو سننے ، سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کرتا ہے ۔انسان اور قرآن کارابطہ اتناعمیق ہے کہ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں :”لَو مَاتَ مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَّا اسْتَوحَشْتُ بَعْدَ اَن یَکُون القُرَآنُ مَعی اگر مشرق و مغرب میں رھنے والے تمام افراد مر جائیں اور اس دنیا میں میں تنھا رہ جاؤں اور قرآن میرے ساتھ ھو تو میں ھرگز وحشت کا احساس نھیں کروں گا۔“ اسی طرح انسان اگر اس نکتہ کو بھی درک کر لے کہ دعا کرتے وقت وہ خدا سے ھمکلام ھوتا ہے اور خدا بہت قریب سے اسکی دعاؤں کو سن رھا ہے ”وَاذَا سَئَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ تو پھر وہ خدا کی بارگاہ میں معمولی اور پست چیزیں نھیں طلب کرے گا بلکہ وہ چیزیں طلب کرے گا جو مقام انسانیت کے شایان شان ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کچھ طلب کرنے کے بجائے صرف اپنے معبود سے ھمکلام ھونے کے لئے دعا کر رھا ھواور اگر وہ کچھ طلب کر رھا ھو تو خدا سے خدا ھی کو طلب کر رھا ھو،اس لئے کہ اگر انسان کوخدا مل جائے تو کچھ نہ ہوتے ھوئے بھی اسے سب کچھ مل گیا اور اگر خدا نہ ملے تو سب کچھ پا کر بھی اسے کچھ نھیں ملا۔ ” مَا ذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَکَ وَ مَاالَّذِی فَقَدَ مَنْ وَجَدَکَ۔“ پروردگارا!اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھو دیا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پا لیا۔

سوالات

1. تقوی کے ذریعے مشکلات پر کس طرح قابوپایا جاسکتا ہے؟

2. ماہ رجب، شعبان اور رمضان کس سے منسوب ہیں؟

3. خدا کے دستر خوان سے ہم کیا فائدے اٹھاسکتے ہیں؟

4. بدو عرب کس طرح چند آیات سے فقیہ بن گیا؟

5. خدا کی میزبانی میں شیریں ترین لمحہ کونسا ہے؟

6. روز قیامت سب سے بڑا عذاب کونسا ہوسکتا ہے؟

اس مقالہ کے بارے میں اپنی رائے letstalkfor@hotmail.com پر بھیجیں