دیوانٍ غالب/غزلیات/ ردیف ن غزل 1 تا 15
وکیپیڈیا سے
فہرست |
[ترمیم کریں] فہرست غزلیات ردیف ن حصہ اوّل
[ترمیم کریں] 103
لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
غالب یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں
[ترمیم کریں] 104
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میںطاقت، جگر میں حال کہاں
ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
[ترمیم کریں] 105
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانئِ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرِ گیا کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم ’نامِ خدا‘ کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالب آشفتہ نوا، کہتے ہیں
[ترمیم کریں] 106
آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
کیا کہوں تاریکئِ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
زخم سِلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں
بس کہ ہیں ہم* اک بہارِ ناز کے مارے ہوُے
جلوۂ گُل کے سِوا گرد اپنے مدفن میں نہیں
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خُوں بھی ذوقِ درد سے، فارغ مرے تن میں نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگ، مینا کی گردن میں نہیں
ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
تھی وطن میں شان کیا غالب کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- نسخۂ مہر اور آسی میں " ہم ہیں" درج ہے۔
[ترمیم کریں] 107
عہدے سے مدِحناز کے باہر نہ آ سکا
گراک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہَے ہَے خُدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں
[ترمیم کریں] 108
مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
[ترمیم کریں] 109
ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن
غرّۂِ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ زندگی ایک دن
دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
[ترمیم کریں] 110
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں
ہر چند جاں گدازئِ قہروعتاب ہے
ہر چند پشت گرمئِ تاب و تواں نہیں
جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر دہ سنجِ زمزمۂِ الاَماں نہیں
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِدل نفس اگر آذر فشاں نہیں
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
کہتے ہو “ کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں“
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاںنہیں
[ترمیم کریں] 111
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو،کہ جہاں
جادہ غیر از نگہِ دیدۂِ تصویر نہیں
حسرتِ لذّتِ آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں
رنجِ نو میدیِ جاوید گوارا رہیو
خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں
سر کھجاتا ہے جہاں زخمِ سر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ بہ اندازۂِ تقریر نہیں
جب کرم رخصتِ بیباکی و گستاخی دے
کوئی تقصیر بجُز خجلتِ تقصیر نہیں
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں‘
[ترمیم کریں] 112
مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سُویداۓ دلِ چشم میں آہیں
[ترمیم کریں] 113
برشکالِ* گریۂ عاشق ہے* دیکھا چاہۓ
کھِل گئی ماندِ گلُ سوَ جا سے دیوارِ چمن
اُلفتِ گل سے غلط ہے دعوئ وارستگی
سرو ہے باوصفِ آزادی گرفتارِ چمن
ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- ’طباطبائ میں ہے کی جگہ ’بھی‘ ہے۔
[ترمیم کریں] 114
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں
سلطنت دست بَدَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پر توِ خورشید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومئ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں
[ترمیم کریں] 115
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں
ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
تماشا کر اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں
سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے
کہ شب رَو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
[ترمیم کریں] 116
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں
کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے
جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
غالب چُھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
[ترمیم کریں] 117
کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
رَو میںہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے
جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیںخواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
غالب ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں، بندگئ بُو تراب میں
[ترمیم کریں] 118
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پُو چھتا ہوں کہ “ جاؤں کدھر کو مَیں“
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں
ہے کیا، جو کس* کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘
یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں
پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں
اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں
غالب خدا کرے کہ سوارِ سمندرِ ناز
دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو میں