محمد علی جناح
وکیپیڈیا سے
|
||
مدت دفتر : | 14 اگست, 1947 – 11 ستمبر, 1948 | |
جانشین: | خواجہ نظام الدین | |
تاریخ پیدائش: | ٢٥دسمبر, 1876 | |
جائےپیدائش: | کراچی | |
تاریخ وفات: | 11 ستمبر 1948 | |
جائےوفات: | کراچی | |
زوجہ: | ایمی بائی, رتن پٹیٹ | |
سیاسی جماعت: | مسلم لیگ | |
اغزاز: | بانى پاكستان |
قائد اعظم محمد على جناح (25 دسمبر 1876-11 ستمبر 1948) آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ آغاز میں آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے اور مسلم ہندو اتحاد کے ہامی تھے۔ آپ ہی کی کوششوں سے 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس میں معاہدہ ہوا۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ انڈیا چھوڑ کر برطانیہ چلے کئے۔ بہت سے مسلمان رہنماءوں خصوصا علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آءے اور مسلم لیگ کی قیادت سنمبھالی۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب قائد اعظم محمد على جناح کی قیادت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔
[ترمیم کریں] ابتدائی زندگی
آپ کراچی، سندھ میں وزیر منشن میں 25 دسمبر 1876 کو پید اہوءے۔ آپ کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ آپ اپنے والد پونجا جناح کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ کھاٹیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ آپ نے باقائدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔
1887 کو آپ براطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لئے گئے۔ براطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کی آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گءیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لءے داخلہ لے لیا اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔
انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے بمبئی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بہت نام کمایا۔
[ترمیم کریں] ابتداءی سیاسی زندگی
[ترمیم کریں] چودہ نکات
[ترمیم کریں] مسلم لیگ کے راہنما
[ترمیم کریں] تحریک پاکستان
[ترمیم کریں] گورنر جنرل
[ترمیم کریں] وفات
قائد اعظم محمد على جناح پاکستان کے بانی تھے-23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش ہوا جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔
[ترمیم کریں] قائدِ اعظم کے متعلق اہلِ نظر کی آرا
[ترمیم کریں] علامہ شبیر احمد عثمانی
آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز علمِ دین جنہوں نے قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔ “شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو“۔
[ترمیم کریں] علامہ سید سلیمان ندوی
عظیم سیرت نگار، برِ صغیر پا ک و ہند کے معروف سیاستدان اور صحافی جناب سید سلیمان ندوی نے ١٩١٦ء میں مسلم لیگ کے لکھنئو اجلاس میں قائدِ اعظم کی شان میں یہ نذرانہِ عقیدت پیش کیا۔
اک زمانہ تھا کہ اسرار دروں مستور تھے
کوہ شملہ جن دنوں ہم پایہِ سینا رہا
جبکہ داروئے وفا ہر دور کی درماں رہی
جبکہ ہر ناداں عطائی بو علی سینا رہا
جب ہمارے چارہ فرما زہر کہتے تھے اسے
جس پہ اب موقوف ساری قوم کا جینا رہا
بادہء حبِ وطن کچھ کیف پیدا کر سکے
دور میں یونہی اگر یہ ساغر و مینا رہا
ملتِ دل بریں کے گو اصلی قوا بیکار ہیں
گوش شنوا ہے نہ ہم میں دیدہء بینا رہا
ہر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید
ڈاکٹر اس کا اگر “ مسٹر علی جینا“ رہا
[ترمیم کریں] مولانا ظفر علی خان
تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تندوتیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو ۔
[ترمیم کریں] علامہ عنایت اللہ مشرقی
خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا - “اس کا عزم پایندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا“۔
[ترمیم کریں] لیاقت علی خان
پا کستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا۔ “ قا ئدِاعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی“۔
[ترمیم کریں] علامہ اقبال
ایک خط میں علامہ نے قائد کو لکھا “ برطانوی ہند میں اس وقت صرف آپ ہی ایسے لیڈر ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے کا حق پوری ملتِ اسلامہ کو حاصل ہے“۔ علامہ کی بیماری کے دوران جواہر لال نہرو ان کی عیادت کو آئے ۔ دورانِ گفتگو نہرو نے حضرت علامہ سے کہا “ حضرت آپ اسلامیانِ ہند کے مسلمہ اور مقتدر لیڈر ہیں کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ اسلامیانِ ہند کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں تو حضرت علامہ نے فرمایا۔
جواہر لا ل ! ہماری کشتی کا ناخدا صرف مسٹر محمد علی جناح ہے میں تو اس کی فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں۔
[ترمیم کریں] مفتیءِ اعظم فلسطین سید امین الحسینی
قائدِ اعظم دسمبر ١٩٤٦ء میں لندن سے واپسی پر قاہرہ میں ٹھہرے انہی دنوں مفتی اعظم قاہرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک تقریب میں آپ نے قائد کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا۔
“ میں نے محمد علی جناح سے گفتگو کی ہے۔ مجھ سے زیادہ برطانوی ملوکیت کا دشمن شاید ہی کوئی ہو۔ میں نے محمد علی جناح کے خیالات کو انگریز دشمنی کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ وہ حقیقتاّ آزادی چاہتےہیں اور آزادی کے لیے انگریز سے مقابلے کا عزم رکھتے ہیں۔ میں ان سے گفتگو کے بعد اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ جناح صاحب نہ صرف دستوری اور آئینی شخصیت کے حامل ہیں بلکہ انقلابی رہنما بھی ہیں۔ انقلابی افکار و خیالات ان کے دل و دماغ میں راسخ ہو چکے ہیں۔ مجھے اس امر کا یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان کے عوام اپنی آزادی کے لیے برطانوی شہنشاہت اور ہندو سرمایہ داری دونوں کے کلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے ہیں“۔
پاکستا بننے کے بعد جناب مفتیءِ اعظم نے فرمایا ۔ “ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فلسطین کے بدلے میں پا کستان کا خطہ عنایت فرمایا ہے“۔
[ترمیم کریں] مولانا ابوالکلام آزاد
قائدِ اعظم محمد علی جناح ہر مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے“ ۔
[ترمیم کریں] فخر الدین علی احمد
سابق صدر بھارت
میں قائدِ اعظم کو برطانوی حکومت کےخلاف لڑنے والی جنگ کا عظیم مجاہد سمجھتا ہوں “ ۔
[ترمیم کریں] کلیمنٹ اٹیلی
وزیرِ اعظم برطانیہ
“ نسب العین پا کستان پر ان کا عقیدہ کبھی غیر متزلزل نہیں ہوا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے جو ان تھک جدو جہد کی وہ ہمییشہ یا رکھی جائے گی “ ۔
[ترمیم کریں] مسولینی
وزیرِ اعظم اٹلی
قائدِ اعظم کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہو گی کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جو کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے “ ۔
[ترمیم کریں] بر ٹرینڈ رسل
برطانوی مفکر
ہندوستان کی پوری تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں ایسی محبوبیت نصیب ہوئی ہو “ ۔
[ترمیم کریں] مہاتما گاندھی
“ جناح کا خلوص مسلم ہے ۔ وہ ایک اچھے آدمی ہیں ۔ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں ۔ میں انہیں زندہ باد کہتا ہوں “ ۔
===پنڈت جواہر لال نہرو
[ترمیم کریں] مسز وجے لکشمی پنڈت
اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا “ ۔
[ترمیم کریں] ماسٹر تارا سنگھ
سکھ رہنما
“ قائدِ اعظم نے مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی ۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی“۔
[ترمیم کریں] سر ونسٹن چرچل
برطانوی وزیرِ اعظم “ مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی رائے میں بے حد سخت ہیں ۔ ان کے رویے میں کوئی لوچ نہیں پایا جاتا۔ وہ مسلم قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں “۔
[ترمیم کریں] مسز سروجنی نائیڈو
مسز سروجنی نائیڈو بلبلِ ہند اور سابق گورنر یو پی کے تاثرات قائدِ اعظم کے متعلق۔ “ ایک قوم پرست انسان کی حیثیت سے قائدِ اعظم کی شخصیت قابلِ رشک ہے۔ انہوں نے ذاتی اغراض کے پیشِ نظر کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنی بے لوث خدمت کے عوض ہندوستان کے مسلمانوں کے لیڈر ہیں ۔ ان کا ہر ارادہ ہر مسلمان کے لیے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ انا کا ہر حکم مسلمانوں کا آ خری فیصلہ ہے جس کی انتہائی خلوص کے ساتھ لفظ بہ لفظ تعمیل کی جاتی ہے “ ۔
[ترمیم کریں] پروفیسر اسٹینلے
“ جناح آف پا کستان “ کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں ۔
“ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کو دکھائے “ ۔
[ترمیم کریں] بیرونی روابط
آپ کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدینur:محمد علی جناح