عمر
وکیپیڈیا سے
حضرت عمر فاروق ، خليفه اوّل حضرت ابوبكر صديق كے بعد خليفه چنے گئيےـ ان كے دور ميں اسلامى مملكت اٹهايس لاكهـ مربع ميل پر مشتعمل تهى ـ
[ترمیم کریں] نام ونسب
نام مبارک آپ کا عمر ہے اور لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب وکنیت دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ نسب آپ رضی اللہ عنہ کا، نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
ابتداءی زندگی
آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکی میں پید اہوءے اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب حضور اکرام ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺ کی سخت مخالفت کی۔ آپ ﷺ کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔
[ترمیم کریں] واقعات
وہ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک ہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔اس لئے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ زیادہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ہم تیرا خطبہ نہیں سنیں گے۔ تو عمرفاروق رضی اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ اسے مارشل لاء کے تحت گرفتار کرلو نہیں انھون نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضہ نے کہا کہ بیٹا اس کو بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر رسول پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہوچکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا ۔ دوستو ہہ ہے حضرت عمر رضہ کا انصاف جس نے ایک گدڑیئے کو یہ حق بخشا کہ وہ مسجد میں کھڑا ہوکر کہے کہ اے عمرفاروق ہم تیرا خطبہ نہیں سنتے۔
[ترمیم کریں] عادات
حضرت عمر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے اور خود حضرت علی بھی حضرت عمر کی جلالت کے معترف تھے چنانچہ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت عمر کی شہادت کے بعد جب حضرت علی آئے تو فرمایا آپ پر اللہ رحمت بھیجے کوئی شخص مجھے تمہارے درمیان اس ڈھکے ہوئے آدمی (مراد حضرت عمر کی میت سے تھی) سے زیادہ پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔