جنگ عین جالوت

وکیپیڈیا سے

جنگ عین جالوت 3 ستمبر 1260ء (658ھ) میں مملوک افواج اور منگولوں کے درمیان تاریخ کی مشہور ترین جنگ جس میں مملوک شاہ سیف الدین قطز اور اس کے مشہور جرنیل رکن الدین بیبرس نے منگول افواج کو بدترین شکست دی۔ یہ جنگ فلسطین کے مقام عین جالوت پر لڑی گئی۔ اس فتح کے نتیجے میں مصر، شام اور یورپ منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچ گئے۔ جنگ میں ایل خانی حکومت کے منگول بانی ہلاکو خان کا سپہ سالار کتبغا مارا گیا۔

فہرست

[ترمیم کریں] سقوط بغداد

تفصیلی مضمون کے لئے سقوط بغداد

ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر عظیم جارحیت کا ارتکاب کیا اور نتیجتاً مسلمانوں کا خلیفہ مسعتصم باللہ ہلاک ہوگیا اور دارالحکومت بغداد سمیت مسلمانوں کی تین چوتھائی سرزمین تاتاریوں کے قبضہ میں چلی گئی۔

سقوط بغداد کے بعد خلافت عباسیہ کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا جس کے بعد مسلمانوں کو شکست در شکست کا سامنا کرناپڑا۔ منگولوں نے سارے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد شام کی سرزمیں پر جارحیت کا ارتکاب کیا اور یہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا کیونکہ اس علاقے کے لوگوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا تھا۔

سقوط دمشق کے بعد تاتار مصر اور مراکش کی طرف بڑھے جو مسلمانوں کے آخری مضبوط گڑھ رہ گئے تھے اور اگر یہ بھی منگولوں کے قبضے میں چلے جاتے تو تمام مسلم امہ تباہ ہوجاتی۔

[ترمیم کریں] خط و کتابت

ہلاکو خان منگو خان کی وفات کے باعث اپنے نائب کتبغا کو کمان دے کر خود وطن واپس روانہ ہوگیا۔ منگول کمانڈر کتبغا نے ایک دھمکی آمیز خط امیر مصر کو روانہ کیا۔ اس میں کچھ اس طرح سے لکھا "ہم نے زمین کو تاراج کردیا، بچوں کو یتیم اور لوگوں کو سزا دی اور قتل کردیا، ان کے سرداروں کی عزتوں کو خاک میں ملادیا۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ہم سے بھاگ سکتے ہو؟ کچھ ہی دیر بعد تھمیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہاری طرف کیا آرہا ہے؟۔

قطز نے منگول سفیروں کو قتل کرواکر ان کی لاشیں دارالحکومت میں لٹکادیں جس سے افواج اور عوام کے حوصلے بلند ہوئے۔ جب قطز کا جواب منگولوں تک پہنچا تو انہیں معلوم ہوگیا کہ مصر میں انہیں ایک مختلف قسم کے رہنما کا سامنا ہوگا۔

فتح کے غرور میں مست منگول آگے بڑھتے چلے گئے اور عراق کو روندنے کے بعد شام، فلسطین اور مصر پر قبضے کی غرض سے آگے بڑھے اورعین جالوت میں ان کا ٹکراؤ مملوک افواج سے ہوا۔

[ترمیم کریں] جنگ کی تیاریاں

قطز صرف جواب دے کر بھول نہیں گیا بلکہ اس کو اندازہ تھا کہ اس قسم کے واضح جواب کے بعد کس قسم کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ لہذا اس نے تیاریاں شروع کردیں۔

مسلمانوں کو متحد کرنے کے لئے اس نے منتشر مسلمان سرداروں کی طرف اپنے امیر مملکت رکن الدین بیبرس کو روانہ کیا۔ اس نے منتشر سرداروں سے اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجانے کا مطالبہ کیا تاکہ مشترکہ دشمن کو شکست دی جاسکے۔

قطز نے علماء سے بھی مدد اور دعا کی درخواست کی۔ اس کے قریبی اور اہم وزراء میں علماء بھی شامل تھے۔ سب سے اہم عالم جنہوں نے سلطان کی مدد کی وہ " سلطان العلماء" العز بن ابدیس سلام تھے۔ سلطان قطز نے بن ابدیس سلام سے فتویٰ طلب کیا تاکہ وہ عوام پر مزید جنگی ٹیکس عائد کرسکے اور مزید ہتھیار حاصل ہوسکیں۔ دیانت دار عالم نے سلطان پر یہ واضح کردیا کہ حکومت کوئی نیا ٹیکس عوام پر نہیں عائد کرسکتی جب تک کہ گورنر و وزرا اپنی ذاتی دولت اور ان کے تمام رشتہ دار اپنی تمام دولت خرچ نہ کرڈالیں۔ العز نے ان غلام سرداروں کو بھی فروخت کرنے کو کہا جو حکومت کے اہم عہدہ دار تھے مگر قانونی طور پر اپنے مالکان سے آزاد شدہ نہ تھے۔

[ترمیم کریں] طبل جنگ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہہ کی مدنظر رکھتے ہوئے کہ "جو لوگ اپنی زمین کے وسط میں حملہ اور کا مقابلہ کریں گے وہ بے عزت ہوں گے" قطز نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر حملہ اور دشمن کا مقابلہ کریں۔ اس نے اپنا ایک ہراول دستہ بھی بیبرس کی قیادت میں غزہ، فلسطین کی طرف روانہ کیا جس نے تاتاریوں کی کچھ افواج کو وہاں مصروف کردیا اور شکست سے دوچار کیا۔ قطز کی مرکزی افواج اسی کی قیادت میں فلسطین کے ساحل کی طرف بڑھیں جہاں صلیبیوں کا مضبوط گڑھ واقع تھا۔ یہاں قطز نے صلیبیوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ غیرجانبدار نہ رہے تو وہ منگولوں سے دو دو ہاتھ کرنے سے پہلے وہ صلیبیوں کو پیس کر رکھ سکتا ہے ۔ اس وقت منگولوں نے صلیبیوں سے اتحاد کرنا چاہا لیکن صلیبی قطز کی دھمکی اور مسلمانوں کی طاقت دیکھتے ہوئے غیر جانبدار رہنے پر مجبور ہوگئے۔ اس وقت وہ تعداد میں اور طاقت میں بھی بہت کمزور تھے ۔

جب مرکزی مسلم افواج دشمن کی افواج کے نزدیک پہنچیں تو قطز نے میدان جنگ خود منتخب کیا جو کہ ایک وادی میں تھا جس کو پہاڑوں نے گھیرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے کچھ سپاہی پہاڑوں پر تعینات کیے تا کہ اگر صلیبی دھوکہ سے، یا منگول و غدار پیچھے کی طرف سے حملہ کریں تو دفاع کیا جاسکے۔

تاتاری ٹڈی دل آخر کار میدان جنگ میں پہنچ گیا جو کہ تینوں طرف سے گھرا ہوا تھا۔ معرکہ آرائی شروع ہوئی اور توازن تاتاری افواج کی طرف جھکتا نظر آیا۔ تاتاری افواج کا دایاں بازو مسلم افواج کے بائیں بازو پر غالب آنا شروع ہوگیا۔ مسلمان افواج نے پسپا ہونا شروع کردیا۔ قطز ایک چٹان پر چڑھ گیا اور اپنے سر سے حفاظتی خود پھینک دیا اور پکار کر اپنی افواج کو لڑتے رہنے کی تاکید کی اور تلقین کی کہ اللہ کے دشمنوں سے جنگ میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ مایوس ہوتی ہوئی مسلم افواج کے سرداروں نے اپنے رہنما کی طرف دیکھا تو بغیر خود کے قطز دیوانہ وار تلوار چلارہا تھا اور دشمن کی صفوں کے درمیان گھس کر کشتوں کے پشتے لگارہاتھا۔ قطز کی جرات نے مسلم افواج کے سرداروں کو دم بخود کردیا جہنوں نے فوراً قطز کی پیروی کی اور مسلم افواج کا حوصلہ بحال ہوگیا۔

کچھ ہی لمحوں میں پانسہ مسلم افواج کے حق میں پلٹ گیا۔ تاتاری افواج منتشر ہوگئیں اور ان کی ایک قابل ذکر تعداد ہلاک ہوگئی یا گرفتار ہوگئی ۔ تاتاری افواج کا سردار کتبغا مارا گیا اور اس کا بیٹا بھی گرفتار ہوا۔ تاتاری افواج کا کوئی بھی فرد قتل یا گرفتار ہونے سے نہ بچ سکا کیونکہ جو تاتاری اس میدان جنگ سے بھاگ گئے وہ شام میں مارے گئے۔

[ترمیم کریں] نتیجہ

جب شاندار فتح کی خبر دمشق اور گرد ونواح پہنچی تو مسلمان خوشی سے سرشار ہوگئے انہوں نے تاتاریوں پر حملے شروع کردیئے اور اسی سال منگولوں کو حمص سے بھی بے دخل کردیا۔

جب تاتاریوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی حکومت مشرقی اسلامی سرزمین پر کمزور ہورہی ہے اور مسلمانوں نے اپنی قوت بحال کرلی ہے تو وہ اپنے وطن کی طرف بھاگے جس کی وجہ سے مملوکوں نے آسانی سے شام کو کچھ ہی ہفتوں میں آزاد کرانے میں کامیاب رہا۔

قطز نے ان مسلمان سرداروں کو جنہوں نے منگولوں کے خلاف جنگ میں مدد کی تھی نوازنا شروع کیا۔ اس نے کچھ ایوبی سرداروں کو ان کی سرزمین واپس کی اور اپنی حکومت میں انھیں قابل عزت وزرا کے طور پر شامل کیا۔