حاصل گھاٹ

وکیپیڈیا سے

’حاصل گھاٹ‘ بانو قدسیہ کا ایک نۓ طرز کا ناول ہے جس میں کوئی کہانی یا پلاٹ نہیں ہے اور نہ اس میں ایک یا ایک سے زیادہ کرداروں کا تذکرہ ہے۔

’حاصل گھاٹ‘ لاشعور کی رو میں لکھا ہوا ناول بھی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس شعور کی رو میں تحریر کیا گیا تین سو چھتیس صفحے کا ایک تفصیلی بیانیہ ہے جسے ہجرت کرنے والوں کے نام منسوب کیاگیا ہے۔

ناول میں ایک شخص اپنی بیٹی ارجمند سے ملنے امریکہ جاتا ہے جو خود ایک نرس ہے اور ا س کا خاوند ڈاکٹر ہے۔ وہ شخص سارا دن بالکونی میں بیٹھ کر اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے اور امریکی زندگی کا جائزہ لیتا اور اس پر رائے زنی کرتا رہتا ہے جن کا ناول کی ساخت سے کوئی تعلق نہیں۔ آخر میں قصہ گو بھاری دل کے ساتھ پاکستان لوٹ جاتا ہے۔

اس قصہ گو شخص کی یادوں، خیالات، جائزوں اور تبصروں کے ملنے سے یہ ناول بنتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بانو قدسیہ نے بہت سے چھوٹے چھوٹے مضامین یا اخباری کالم لکھے اور پھر ان کو جوڑ کر ایک ناول کا نام دے دیا۔

تاہم یہ جذباتی قسم کے مضامین اور تبصرے اور تقابلی جائزے ایسی شدت سے لکھے گۓ ہیں کہ تحریر میں دلچسپی پیدا کردیتے ہیں اور قاری کو ساڑھے تین سو صفحے پڑھوا دیتے ہیں۔ یہی بانو قدسیہ کی کامیابی ہے۔

یہ ناول ایسے لوگوں کو بے حد پسند آئے گا جو امریکی زندگی سے نالاں ہیں یا جدید مغربی طرز حیات کے مقابلہ میں بر صغیر کی روایتی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔

بانو قدسیہ کا قصہ گو کردار، ایک بوڑھا آدمی، ماضی کی زندگی سے متعلق اور لاہور میں ایک متوسط طبقہ کی معاشرت سے متعلق چھوٹے چھوٹے واقعات ایک ناستیلجیا کے ساتھ یاد کرتا ہے اور سنہ پچاس ساٹھ کی معاشرتی اور خانگی زندگی کا ایک نقشہ سا ہمارے سامنے آجاتا ہے۔

بانو قدسیہ عورت کے بارے میں بھی قدامت پسند خیالات کی حامل ہیں اور جدید عورت کی مرد سے برابری اور روایتی کردار سے باہر نکلنے کی کوشش ان کی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ تاہم بانو قدسیہ نے جہاں جہاں عورت کے کردار کی وضاحت کی ہے وہاں ان کا بیانیہ خاصا زور دار ہے۔ ان کے خیالات شاید سبھی لوگوں کے لیے قابل قبول نہ ہوں۔

بنیادی طور پر اس ناول کا مزا بانو قدسیہ کی فلسفہ آرائی ہی میں ہے۔ وہ انسان کی زندگی، معاشرت، عورت مرد کے تعلق ، سیاست اور جدید تہذیب پر بلا تکان اپنا فلسفہ بھگارتی چلی جاتی ہیں اور یہ خیالات اتنے فکر انگیز یا اشتعال انگیز ہیں کہ ان سے خط آنے لگتا ہے۔

ایک جگہ بانو کہتی ہیں کہ ہر عورت ماں اور طوائف کا ملغوبہ ہے اور ہر مرد بھی ایک کفالت کرنے والے اور زناکار کا مجموعہ ہے۔ ایک اور جگہ کہتی ہی کہ عورت بڑھاپے میں پرورش کے چکر میں شامل نہ ہو تو وہ بیماری کے دائرےمیں داخل ہوجاتی ہے۔

مغربی تہذیب کی تنقید حاصل گھاٹ کا مرکزی موضوع ہے۔ مصنفہ مغربی معاشرہ کی آزادی پر نشتر چلاتے ہوئے ایک جگہ کہتی ہیں کہ آزاد ہونے کے باوجود خواہشات آپ کو بازار مصر میں گھسیٹتی پھریں گی اور بہت جلد آپ کو علم ہوجائے گا کہ ترقی کی بانسری کے پیچھے بھاگتے بھاگتے آپ کسی تپتے صحرا میں پہنچ گئے۔

اردو کے اس ناول میں پنجابی اور انگریزی الفاظ کو کثرت سے استعمال کیا گیا ہے جو بعض جگہ خاصا لطف دیتے ہیں اور کہیں اردو کے عام قاری کے لیے ان کی تفہیم خاصی دشوار ہوجاتی ہے۔ اشفاق احمد نے پنجابی الفاظ کو اپنی تحریروں میں سمونے کا جو کام شروع کیا تھا بانو قدسیہ نے بھی اسی طرز کی پیروی کی ہے۔

چونکہ ناول میں کرداروں کے منہ سے تو زیادہ بات کہلوائی نہیں گئی بلکہ ایک شخص کے ذریعے ہی زیادہ بات کہی گئی ہے اس لیے ناول کی زبان مضمون یا انشائیہ کی زبان ہے جس میں مشتاق یوسفی اور مختار مسعود کی طرح نثر کو خوب مانجھ مانجھ کر لکھا گیا ہے اور جملہ میں ندرت پیدا کرنے کے لیے بہت سے دقیق اور عالمانہ الفاظ کو استعمال کیاگیا ہے۔

’حاصل گھاٹ‘ کے سرورق پر اسے ناول لکھا گیا ہے۔ بانو قدسیہ کے مقبول عام ناول ’راج گدھ‘ کے اب تک چودہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور وہ ایک کہنہ مشق افسانہ نگار اور ناول نگار کے طور پر جانی جاتی ہیں اس لیے ’حاصل گھاٹ‘ کو بھی ناول کے دائرہ کار سے باہر کرنا کسی نقاد کے لیے مشکل کام ہوگا۔

کہا جاسکتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے مضامین سے جڑ کر بننے والا یہ ناول دراصل ایک روایتی شخص کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کی نمائندگی کرتا ہے جو اسے بدلتی ہوئی دنیا اور امریکی تہذیب کا سامنا کرنے سے پیش آتی ہے۔ اس لحاظ سے ’حاصل گھاٹ‘ پاکستان کے ایک قدامت پسند طبقہ کے خیالات اور جذبات کا تحریری اظہار ہے۔

تاہم ناول کی تکنیک پر اعتراضات کی گنجائش بہر حال موجود ہے۔ بانو قدسیہ کوئی اوریجینل رنگ پید نہیں کرسکیں۔ ناول کا بڑا حصہ صوفی دانشور واصف علی واصف (جو اشفاق احمد او بانو قدسیہ کے مرشد بھی رہے) کی مضمون نگاری کے پیرائے میں تحریر کیاگیا ہے۔