اسلام کی عظیم امت
وکیپیڈیا سے
اسلام کی عظیم امت
قرآن مجید تمام مسمانوں کو ایک امت قرار دیتا ہے کیونکہ سبھی ایک خداکی پرستش کرتے ہیں اور ایک پیغمبر (ص)ومعاد کو قبول کرتے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کا آخری پیغمبر مانتے ہیں، قرآن کو آسمانی اور عملی آئین تسلیم کرتے ہیں، سبھی کا ایک ہدف ہے اور وہ ہے احکام الہی کا تمام جہاں میں جاری کرنا اور نظام توحیدی کو عمل میں لانا۔ نظام توحیدی اس نظام کو کہا جاتا ہے جو خدا پرستی، اللہ تعالی کی رہبری اور احکا م الہی کے اجر پر مبنی ہو۔
مسلمانوں کی تعداد پوری دنیا میں بہت زیادہ ہے (جو تقریبا ایک ارب ہے ) مسلمان مختلف شہروں، قصبوں، صوبوں، ملکوں اور بر اعظموں میں رہتے ہیں ، مختلف اقوام پر مشتمل ہیں، مختلف زبانوں میں گفتگو کرتے ہيں ،مختلف جگہوں پر مختلف گروہوں پر حکومت کرتے ہیں اور انھوں نے اپنی حکومت کے لۓ سرحدیں بنا رکھی ہیں۔
لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ یہ تمام کے تمام اپنے ملک کے افراد کے حالات پر نظر رکھتے ہیں اور بقیہ مسلمانوں کے لۓ جو ان ممالک کے باہر دوسرے ممالک میں زندگی گذارتے ہیں کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ انھیں اجنبی وبیگانہ سمجھتے ہیں لیکن اسلام اور قرآن اس کوتاہ فکری کو قبول نہیں کرتا بلکہ تمام جہان کے مسلمانوں کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کسی زبان میں بھی باتیں کرتں ایک امت قرار دیتا ہے۔ خیالی اور وہمی سرحدیں تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتیں اگرچہ مسلمانوں کی سرزمین مختلف حکومتوں سے ہی کیوں نہ چلائی جارہی ہوں۔ مسلمان ایک دوسرے سے اجنبی و بیگانہ نہیں ہیں، بلکہ تمام کے تمام اسلام ، مسلمان اور اس عظیم اسلامی معاشرے میں مشترک ذمہ دار ہیں ۔
اسلامی حکومت کے سربراہوں کو نہیں چاہۓ اور نہ ہی وہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی حکومتوں کو ایک دوسرے سے اجنبی قرار دیں اور وہ بے خبر رہیں حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے :
جو بھی مسلمانوں کے امورکی اصلاح کی فکر میں نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔
پیغمبر اسلام (ص) کے اس فرمان کے بعد کیا وہمی سرحدیں اور خطوط مسلمانوں کو ایک دوسرے سے اجنبی قرار دے سکتے ہیں ؟ کیا جغرافیائی حدود اسلامی برادری اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داریوں کو محدود کرسکتی ہیں ؟ کیا ایک ثروت مند ملک کہ جس کی آمدنی بہت زیادہ ہو دوسری اسلامی حکومتوں سے جو فقیر ہو بے پرواہ رہ سکتا ہے ؟ کیا ایک اسلامی آزاد اور ترقی یافتہ ملک دوسرے اسلامی ملک سے جو دوسروں کے زیر تسلط ہو بے توجہ رہ سکتا ہے ؟ کیا حکم نہیں ہے کہ ہر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمانوں کے امور کی اصلاح کی فکر کرنی چاہۓ ۔
اگر کسی مسلمان حکومت پر کوئی ظالم حملہ کردے تو جانتے ہوکہ دوسرے اسلامی ممالک کی کیا ذمہ داری ہے؟ تمام اسلامی ممالک پر واجب اور لازم ہے کہ اپنی تمام قوت اور فوج کو لیکر اس ظالم حملہ آور پر حملہ کردیں اور اس متجاوز ظالم کو پوری طاقت سے اس ملک سے دور کردیں کہ جس پر اس نے حملہ کیا تھا اس لۓ کہ ایک اسلامی حکومت پر حملہ کرنا پوری دنیا ۓ اسلام اور پیغمبراسلام (ص) کی عظیم امت پر حملہ کرنا ہوتا ہے ۔
اگر پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامی ملک کے کسی گوشہ پر حملہ کیا جاتا تو پیغمبر اسلام (ص) کیا کرتے اور اپنا اس کے متعلق کیا رد عمل ظاہر کرتے ؟ کیا یہ ہوسکتا تھا کہ آپ خاموش رہتے اور کوئی عملی اقدام نہ کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ہرگز نہیں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ بلکہ پیغمبراسلام (ص) مسلمانوں کے عظیم لشکر کو اسلام کی سرزمین کے دفاع کے لۓ روانہ کرتے اور جب تک دشمن کو وہاں سے نہ ہٹا دیتے آرام سے نہ بیٹھتے ۔پیغمبر اسلام (ص) نے اس عظیم ذمہ داری کی بجا آوری موجود زمانہ میں اسلامی معاشرے کے رہبران الہی پر ڈال رکھی ہے اور اس کی بجا آوری انھیں کی ذمہ داری ہے۔
تما م مسلمانوں سے اور با لخصوص ان مذہبی رہبروں سے امید ہے کہ وہ اسلامی ممالک کی سرزمین کی اور اسلام کی اعلی وارفع قدروقیمت کی پوری طاقت وقوت سے حفاظت کریں اور اجنبیوں کے مظالم کو اسلامی ممالک سے دور رکھیں۔
مسلمانوں کو یہ حقیقت ماننی چاہۓ کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی برادری اور خلوص سے زندگی کرنی چاہۓ اور کفر ومادی گری جو تمام مسلمانوں کا مشترک دشمن ہے اس کے مقابل متحد ہونا چاہۓ ۔
اسلام کے دشمن ہی نے تو مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر یہ ملک اور وہ ملک یہ قوم اور وہ قوم یہ بر اعظم اور وہ بر اعظم بنا رکھا ہے حالانکہ تمام مسلمان ایک اور صرف ایک ملت ہیں اور انھیں مشترک دشمن کے مقابل یعنی کفر ومادی گری وجہان خوار اور استکبار کے سامنے متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہۓ اس صورت میں دشمن کبھی جرآت نہ کرسکے گا کہ اسلامی سرزمین کے کسی گوشہ پر تجاوز کرسکے اور ان کی دولت وثروت کو لوٹ لے جاۓ اور مسلمانوں کی عزت وشرف اور صحیح فرہنگ کو نابود کرسکے۔
مسلمانوں کو چاہۓ کہ وہ کفر سے چشم پوشی کرتے ہوۓ جہان اسلام کی وحدت اور ان کی داخلی طاقت کی تقویت اور اس کے کامل استقلال کے لۓ کوشش کریں تاکہ وہ شرق و غرب کے شدید و خطرناک طوفان کے مقابل آزاد اور با وقار زندگی بسر کرسکیں۔
مسلمان تب ہی فتحیابی سے ہمکنا ر ہوسکتا ہے جب وہ اپنی عظیم طاقت پر انحصار کرے اور اسلام کے دشمن پر سہارا نہ کرے اسلام کے دشمن کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ۔ اسلام کے دشمن دوستی کا اظہار بھی کریں تو وہ جھوٹ بولتے ہیں اور سواۓ مکر و حیلہ اور ثروت کو لوٹنے کے اور کوئی ان کی غرض نہیں ہوتی ان کی عہد و پیمان پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔
خدا وند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے کہ :
کافروں کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ ان کے عہد و پیمان بے اعتبار اور بے فائدہ ہوا کرتے ہیں۔
مسلمانوں کو متحد ہونا چاہۓ اور کسی بھی حکومت کو اجازت نہ دیں کہ اسلامی ممالک میں معمولی مداخلت کرسکیں۔
خدا قرآن میں فرماتا ہے :
والذین معہ اشداء علی الکفار رحما بینھم ۔
یعنی مومنین کو کافروں کے مقابل میں سخت ہونا چاہۓ اور آپس میں بہت مہربان اور ہمدرد ۔
لہذا ساری دنیا کے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک اسلامی وسیع نظری کی بنا پر تمام عالم اسلام کو ایک جانیں اور آپس میں ہمدردی تعاون، وبرادری اور اتحادکا معاہدہ کریں اور اسلام کی اعلی ترین مصالح کی خاطر معمولی اختلافات سے صرف نظر کریں ،اختلافات پیدا کرنے والے عوامل واسباب کا مقابلہ کریں اور اپنے معمولی اختلاف اور کدورتوں کو حسن نیت اور حس اخلاق سے حل کریں اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کریں کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا نہ ہو۔
اگر مسلمانوں کی حکومت میں سے کوئی حکومت دوسروں کے ایماء پر کسی دوسری مسلمان حکومت پر حملہ کرے تو سارے مسلمانوں با لخصوص ممالک اسلامی کے سربراہوں کی ذمہ داری ہوگی کہ فورا ان کے اختلاف کو حل کریں ،ان میں صلح و صفائی کرادیں اور عالم اسلام کو بہت بڑے خطرے یعنی اختلاف وتفرقہ سے نجات دلائیں اور پوری غیر جانبداری سے متجاوز کو پہچانیں ان کا اعلان کریں اور اس کو حکم دیں کہ وہ اپنے تجاوز سے دست بردار ہوجاۓ اور اگر اس کے باوجود بھی وہ اپنی ضد پر باقی رہے اور اپنے تجاوز سے دست بردار نہ ہو پھر فریضہ کیا ہوگا ؟
تمام مسلمانوں کا فریضہ ہوگا کہ متجاوز سے اعلان جنگ کریں اور پوری طاقت سے یہاں تک کہ خونریزی وجنگ سے اسے سرکوب کریں اسے اپنی حالت کی طرف لوٹا دیں اور پھر ان دو جنگ کرنے والے ملکوں میں مصالحت کرائیں اور انھیں پہلی والی حسن نیک اور خوش بینی کی طرف لوٹا دیں۔
اس طریقہ سے عالم اسلام کو اختلاف وتفرقہ سے محفوظ رکھیں تاکہ کافر خود اپنے منھ کی کھاۓ اور اسے اجازت نہ دیں کہ وہ مسلمانوں کے امور میں اگرچہ ان میں صلح کرانا ہی کیوں نہ ہو مداخلت کرے ۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کی یہی ذمہ داری بیان کی ہے۔
قرآن مجید کی آیت:
وان طائفتان من المومنین اقتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احدیھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیئی الی امر اللہ فان فائت فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتقو اللہ لعلکم ترحمون (سورہ حجرات آیات 10۔9)
اور اگر مومنین میں سے دوفرقے آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادی کرے تو جو فرقہ زیادی کرے تم بھی اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرے پھر جب رجوع کرے تو فریقین میں مساوات کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف سے کا م لو بیشک خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے مومنین تو آپس میں بس بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کردیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تا کہ تم پر رحم کیا جاۓ۔
--Irtiza 08:50, 17 ستمبر 2005 (UTC)