ڈیورنڈ لائن

وکیپیڈیا سے

Durand Line

14 اگست 1947ء سے پیشتر جب پاک و ہند پر برطانیہ کا قبضہ تھا، برطانیہ کو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی تھی کی شمال مغربی سرحد پر روس کا اقتدار نہ بڑھ جائے یا خود افغانستان کی حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ کے اندر گڑبڑ پیدا نہ کرا دے۔ ان اندیشیوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وائسرائے ہند نے والی افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر امور خارجہ سر ما ٹیمر ڈیورڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ جو ڈیورنڈ لائن یا خط ڈیورنڈ لائن کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ ’’نورستان‘‘ ، اسمار ، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور افغانستان استانیہ ، چمن ، نوچغائی ، بقیہ وزیرستان ، بلند خیل ، کرم ، باجوڑ ، سوات ، بنیر ، دیر چیلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے دستبردار ہوگیا۔

14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا کابل کی حکومت نے خط ڈیورنڈ کی موجودہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ دریائے اٹک تک کا علاقہ کابل کی فرماں روائی میں ہے۔ کیونکہ بقول اس کے اس علاقے کے لوگ افغانوں کے ہم نسل تھے اور ہم زبان تھے۔ جب کہ سکھوں کے دور سے پہلے تک یہ علاقہ افغانستان کا علاقہ شمار کیا جاتا تھا۔

کابل کی شہ پا کر اور بھارت کی تحریک پر صوبہ سرحد کے کچھ رہنماؤں نے پختونستان قائم کیے جانے کا مطالبہ پیش کر دیا۔ پشتون چونکہ افغانستان میں بھی اکثریت رکھتے ہیں اس لیے کابل اور نئی دہلی دونوں نے اس مسئلے کوخوب اچھالا۔ مگر اس تمام صورت حال سے کچھ بھی نہ نکل سکا۔ شمال مغربی سرحدی صوبے کے عوام نے پاکستان کا ساتھ دیا ۔ قبائیلوں نے موجودہ آزاد کشمیر کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ساٹھ سال بعد ان محب وطن عوام کو دہشت گرد قرار دے کر پاکستانی فوج نے گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ اور کاٹ رہی ہے۔

دیگر زبانیں