دنیاوی مشکلات

وکیپیڈیا سے

دنیاوی مشکلات کا حل اسلام کے پاس ہے

زندگی کے تمام شعبوں اور روحانیت کے مکمل جنبوں کی بے نظیر گہرائی اور جامعیت کے لحاظ سے اسلام نے جو نظام بشریت کے ہاتھوں میں دیا ہے وہ کسی اور نظام نے نہيں دیا کیونکہ اسلام کے اندر تمام خیر و سعادت کے راستے موجود ہیں ۔ اسلام اپنے حکیمانہ نظام سے تمام بشریت کے دردوں کادرماں کرنے والاہے ، عقل انسانی کی رسائی جن حدوں تک ممکن ہوسکتی ہے معاشرے کے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں احکام اسلام کی متانت واضح وروشن ہے ۔چونکہ قوانین اسلام کا بنیادی مقصد انسان کے تمام شعبہ ہائے زندگی کی تربیت کرنا ہے اور عالم تربیت میں کسی بھی واقعیت کو آنکھ بند کرکے قبول نہيں کیا جاسکتا،اس لئے اسلام تمام ان واقعیتوں کی طرف متوجہ ہے جو وجود انسانی سے متعلق ہیں ۔

ماہیت انسان کے سمجھنے میں اسلام نے نہ تو آج کے انسان کی طرح اشتباہ کیا ہے اور نہ آج کے فاسد نظام سے آلودہ ہوا ہے ۔ آج کے نظام نے انسان کے سمجھنے میں غلطی کی ہے کیونکہ کبھی تو انسان کو مقام الوہیت سے بھی اوپر اٹھادیا جس کے نتیجے میں انسان بیجا غرور اور خود پسندی میں مبتلا ہوگیا ۔اورکبھی انسان کو پست ترین منزل یعنی غلامی میں پہنچادیا۔اس سے اس کا ہر قسم کا ارادہ و اختیار چھین لیا اورمادی وطبیعی زیادتیوں کے مقابلے میں اس کو مجبور و بیکس بنادیا ۔ بلکہ اسلام نے انسان کو اس کا صحیح مقام دیا ہے اور بہترین و مناسب ترین صورت سے اس کی معرفی کی ہے اور اس کی اہمیت و عظمت کو تمام موجودات کے مقابلے میں متعین کیا ہے ۔

اسلام کے آئینے میں انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو عظیم ترین مقام کی حامل ہے اورتمام مخلوقات میں اس کو ایک خاص منزلت حاصل ہےاسلام نے بتایا کہ انسانی زندگی کاخاتمہ موت سےنہیں ہوجاتابلکہ اس کی زندگی ایک زندگی جاوید ہے اس میں دنیاوی اوراخروی پہلوایک دوسرے سے جدا نہیں کئے جاسکتے روح وبدن میں اتنا مکمل اتصال و اتحاد قراردیا ہے کہ عنصر روح و عنصر بدن میں کبھی شگاف نہیں پڑسکتا اور اسی لئے اسلام نے دونوں جہان کے روشن ترین پروگرام کو پیش کیا ہے اور اسلام انسان کی ابدی تربیت کرناچاہتا ہے ۔

اگر چہ نو امیس عمومی اوردنیاوی تغیر کے باوجود اسلام کے عقائد ، اخلاق ، احکام تمام چیزوں پرابدیت کا سایہ ہے مگر پھر بھی مسائل امروزہ ، معاشرے کے ضروری موضوعات پر آزادی فکر و خیال و اجتہاد کے دروازے کلی طور پر کھول رکھے ہيں تاکہ متغیر زندگی کے حالات کو نامتغیر قانون شریعت کے سانچے میں ڈھالا جاسکے ۔

اسلامی نقطہ نظر سے انسان ایسی خواہشوں کا مالک ہے جوسراسر مادیت سے مربوط ہیں اوراسی کے ساتھ اس میں ایسی تمنائیں وجذبات بھی موجود ہیں جو مادیت کی قید وبند کو توڑدینا چاہتے ہیں اورارتقاء کی طرف مائل ہونا چاہتے ہیں چونکہ انسانی جسم و روح وعقل ہرایک کے الگ الگ تقاضے ہيں ۔ لہذا نہایت توجہ اورغور و فکر کے ساتھ ایک مصلحت کودوسری مصلحت پرمقدم کئے بغیر ان کی طرف ملتفت رہنا چاہئے ۔

اسلام انسان کی ہمہ جانب سعادت اورتمام مادی و معنوی تقاضوں کا لحاظ رکھتاہے انسان کے فطری تقاضوں کی سرکوبی کئے بغیر اور مادی رشتوں کو قطع کئے بغیر امکانی حد تک آدمی کی طہارت و پاکیزگی طبیعت کاخیال رکھتا ہے ۔ مختصرا یوں سمجھ لیجئے کہ دو متضاد قطب کے درمیان ایک معتدل راستہ ہے۔نہ تو ان عقائد و نظاموں کا قائل ہے جن کا مطلب رہبانیت اور فطری تقاضوں کی سرکوبی ہے اور نہ حیوانیت کی حد تک آزادی و بے راہ روی جسکا ایک گروہ فروئیڈین وغیرہ قائل ہیں ــــــــــــــ کی اجازت دیتا ہے ۔

عالم تصورات میں ایک خیالی تھیوری کانام اسلام نہيں ہے ۔اسلام انسانی روش زندگی کی تصحیح کرنے کے لئے نہیں بلکہ خود ایک پرمعنی زندگی کا موجد بن کر آیا ہے یہ ایسا نظام ہے جو جامع ہونے کے ساتھ متحرک و سازندگی لئے ہوئے ہے ۔ اسلا م تنہا وہ زندہ سسٹم ہے جو زندگی کے بارے میں جامع طرز فکر رکھتا ہے ۔ اسلام تمام مسلک و مکتب ہائے فکر کے درمیان جامع ترین اور قوی تر آئیڈیالوجی پیدا کرسکتا ہے جواپنے افق کی گہرائیوں کےلحاظ سے ان سب تفوق و برتری رکھتا ہو ۔

اسلام نے خالص مادی طرزفکر کورد کردیا ہے اورمادے و اقتصاد یات کی اولویت ، اور اصل لذت کو خوش بختی و سعادت کی بنیاد نہیں مانتا ۔اصولی طور پر آج کی موجودہ دنیا میں ان موجودہ نظام کا ــــــــــــــ جن کے پاس زندگی کا کوئی ہدف نہيں ہے اور جن کے پاس مادیات کے ماوراء کچھ بھی نہیں ہے ۔ بنیادی اور کلی طور سے مخالف ہے ۔

اسلام انسان کو مادیت کی چہاردیواری میں قید نہیں کرتا ، کیونکہ ان کی دعوت کی بنیاد اس سے کہیں زیادہ بلند اوروسیع ہے بلکہ مختلف لحاظ سے زندگی کے ہدف عالی سے غافل نہيں ہےاسلام کی بنیاد ایسے معنوی ،روحی، اخلاقی اصول پر رکھی گئی ہے جو عام و خاص ہر انسان کے مقتضیات کے مطابق ہےاور اسلام نے اجتماعی تعاون و ہمکاری کے ساتھ ساتھ معیار زندگی کو بہت اونچا کیا ہے ۔ فردو اجتماع کو محدود دائرے سے نکال کر زندگی کے اعلی اقدار کی تلاش و جستجو پر آمادہ کرتا ہے اورانسانی قوتوں کو تکامل و ترقی کی طرف کھینچتا ہے ۔

اسلام تربیت کی بنیاد اس طرح رکھی گئی ہے کہ انسانی عواطف کا تصفیہ و تہذیب کرکے ان کو صحیح راستے پر ڈال دے اور اس مقصد کے حصول کے لئے مکمل بصیرت کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا ہے ۔

آدمی کے مزاج و طبیعت کے اندرجو محرک عوامل موجود ہیں انکو فطری تقاضوں اوراصلی ضرورتوں کے مطابق ایک مخصوص و منظم طریقے پر لاتا ہے اور ہرا یک عامل کا اس کے لحاظ سے اہتمام کرتا ہے ۔ تند و تیز میلانات پر مختلف وسائل کے ذریعے کنڑول کرتا ہے ۔تاکہ یہ خواہشات عقل کو اسیر و محبوس کرکے آدمی کے سر نوشت وجود کواپنے تابع کرلیں اور اس طرح سے انسان کو ہولناک ہلاکت میں گرانے سے بچاتا ہے اور اسی کے ساتھ ہر فرد کی معقول کامیابی کوجائز سمجھتا ہے ۔

اس طرح انسان بنائے زندگی اور پیش رفت حیاتی میں مسلسل اپنی کچھ قوت کو زندگی کی برقراری کےلئے صرف کرسکتا ہے اور کچھ قوت کو روحی میلانات اور معنوی تقاضوں میں استعمال کرسکتا ہے ۔

جب افراد کی طبیعت و فطرت کے اندر یہ ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی تو فرد و اجتماع دونوں منظم ہوجائيں گے اور دونوں کی رفتار معتدل ہوجائے گی اور انسان کی پوری زندگی معیاری ہوجائے گی ۔

اورچونکہ اس تربیت کی بنیاد عقلی بنیادوں پر ہے اس لئے عقائد کے پاک اور اوہام سے خالی سلسلے کی طرف دینی تبلیغ ہوتی ہے اور ایسے عملی قوانین و اخلاقی فضائل کی طرف دینی تبلیغ ہوتی ہے جس کی صحت کا ہر انسان خداداد عقلی قوت سے ادراک کرسکتا ہے ۔

اسلام کی ساری تعلیم اور ساری تکلیف ہر فرد کی طاقت و قوت کے اندر ہی اندر ہے ۔ احکام کے نافذ کرتے وقت بشری طاقت وقوت کا خاص لحاظ رکھا جاتاہے ۔ اسلام کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہيں دیتا ۔ قیامت کے دن ہر شخص سے اس کے ارادے و توانائی کے لحاظ سے دئےگئے فرائض کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

--Irtiza 06:15, 17 ستمبر 2005 (UTC)