روزہ کیوں رکھیں؟ اعتراضات کے جواب

وکیپیڈیا سے

روزہ (۳)

روزہ کیوں رکھیں ؟ کے سلسلے میں دوسرا مقالہ پچھلے مقالہ کے لیئے سرچ کریں " روزہ کیوں رکھیں؟

اس درس میں ھم دوسرے سوال کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں کہ کیا روزہ انسان کے اندر کمزوری ایجاد کرتا ہے یا نہیں ؟

كمزوري يا قوت؟ یہ درست ہے کہ روزہ کی حالت میں انسان کو بعض اوقات نقاھت کا احساس ھوتا ہے جو بھوک اور پیاس کا ایک طبیعی تقاضا ہے ،اسی نقاھت کو بعض افراد کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ کمزوری اورنقاھت میں فرق ہے ۔نقاھت ایک وقتی احساس ہے جو بہت جلدی ختم ھو جاتا ہے بلکہ انسان اگر اسرار و فلسفۂ روزہ سے واقف ھو توشدیدترین گرمیوں کے روزے میں بھی اسے بجائے سستی اور نقاھت کے لذت ،نشاط اور طمانینت کا احساس ھوتا ہے جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں بیان ھواہے کہ آپ گرمیوں کے روزوں کوبے حد عزیز رکھتے تھے۔

یہ بھی درست ہے کہ روزہ بعض افراد کے لئے جسمانی کمزوری کا بھی باعث بنتا ہے لیکن جسمانی کمزوری اس بات کی دلیل نھیں  ہے کہ اس سے ا نسان بھی ضعیف ھو جائے---- بلکہ ممکن ہے کہ اس جسما نی کمزوری کے باوجود انسان خود کو عزم و ارادے اور استقامت کے لحاظ سے اتنا طاقتور کر لے کہ جسمانی کمزوری اسکے عزم و ارادے کی راہ میں  رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے کیونکہ یہ بات علمی اور تاریخی شواھدکے اعتبار سے مسلم ہے کہ مضبوط عزم و ارادے کے سامنے جسمانی تھکاوٹ یا کمزوری مانع ایجاد نھیں  کر سکتا اس کے بر خلاف جسم کتنا ھی طاقتور کیوں  نہ ھو لیکن عزم و ارادے کی سستی اسکے حوصلوں  کو ٹھنڈا کر دیتی ہے اور انسان عمل کے میدان میں  پیچھے رہ جاتا ہے ۔ پس روزہ ممکن ہے بعض افراد کے لئے وقتی کمزوری کا سبب بنے لیکن دوسری طرف یہی روزہ انسان کے اندر صبر، تحمل، استقامت، قوت برداشت اور قوت عزم و ارادہ پیدا کرتا ہے ۔ان معنوی قوتوں  کے حاصل ھونے کے بعد جسمانی کمزوری کسی طرح کی رکاوٹ ایجاد نہیں  کر سکتی اور انسان کی عظیم  رو ح جسمانی کمزوری پر غالب آجاتی ہے ۔یہ اس صورت میں  ہے کہ جب یہ فرض کیا جائے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری پیدا ھوتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ انسان کو جسمانی اعتبار سے سالم اورمتعدد قسم کے امراض سے محفوظ کر دیتا ھے۔        

یہیں سے ھمیں تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے اور وہ یہ کہ پانی و کھانا اگر چہ جسم کا تقاضا ہے اور عام حالات میں انسان کے لئے بھوک اور پیاس ناگوار اور سخت ھوتی ہے ،لیکن مذکورہ اھداف وفوائد اور بعد میں بیان ھونے والے عظیم اسرار کی خاطر انسان کے لئے یہ ناگوار چیز نھایت عزیز، لذت بخش اور پسندیدہ ھوتی ہے یھاں تک کہ وہ عاشق اور محب روزہ ھو جاتا ہے جس طرح امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور نماز کے لئے فرمایاتھا کہ خداجانتا ہے ” اِنِّی اُحِبُّ الصَّلَوۃَِ “ میں نماز کا عاشق ہوں یا امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان کے آخر میں گریہ و زاری کے عالم میں اس مبارک مہینہ کو الوداع کرتے ہیں : ” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَکْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْاَوْقَاتِ اے کریم ترین ساتھی تجھ پر سلام ۔ روزہ کے ان اھداف کو دیکھتے ھوئے انسان بہت خوشی کے ساتھ اپنے ھاتھوں سے حاصل کی ھوئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جس طرح ایک طبیب کے مشورے پر انسان بہت سی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے حتی ضرورت پڑنے پر قطع اعضا اور آپریشن کے لئے بھی تیار ھوجاتا ہے بلکہ اس عمل کے لئے ڈاکٹر کو بڑی سے بڑی مقدار میں اجرت دیکر بعد میں شکر گزار بھی ھوتا ہے ۔ حلال چیزوں کے حرام ھونے کا ایک اور بڑا مقصد وھی ہے جو پہلے بیان ھوا یعنی زندگی کی یکسانیت سے نجات تاکہ انسان ان روزمرہ عادتوں کے زندان سے نکل کر عظیم امور و معارف کی طرف متوجہ ھو سکے ۔

آزادي يا قيد؟ انسان کے ذھن میں اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک اھم سوال یہ تھا کہ روزہ کے وقت انسان شدید پابندی کی حالت میں ھوتا ہے اور یہ درست بھی ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ انسان کو عظیم اھداف تک پہنچنے کے لئے اپنے اوپر پابندیاں عائد کرنی پڑتی ہیں ۔ پابندیاں اگر چہ سخت ھوتی ہیں لیکن بغیر پابندی کے کوئی ھدف اور کمال قابل حصول نھیں ہے ۔ ایک طالب علم ، دانشمند اور ملازم کو اپنے عظیم اھداف تک پہنچنے کے لئے اپنے اوپر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑتی ہیں جنمیں سر فھرست وقت کی پابندی ہے ۔اس کے علاوہ بہت سی حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرنی پڑتی ہیں ورنہ کامیابی حاصل نھیں ھوتی خاندان ، قبیلہ ، شھر ، ملک اور دنیا کو ھرج و مرج سے بچانے کے لئے انسان کو اپنے اوپر خاندانی ، قبائلی ، شھری ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی پابندیاں عائد کرنی پڑتی ہیں ۔ اسی طرح دین و شریعت اورانکے احکام بھی ایک پابندی ہیں جنکے دو ھدف ہیں : ۱۔ انسان کو فردی و نفسیاتی مشکلات اور اجتماعی ھرج ومرج سے محفوظ رکھنا ۔ ۲۔ انسان کے اندر مادی و معنوی ،جسمانی و روحانی اور فردی و اجتماعی تکامل پیدا کرنا ۔ روزہ بھی دیگر احکام دین کی طرح ایک پابندی ضرور ہے لیکن ایک ایسی پابندی جو ایک طرف انسان کے اندر تکامل پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف اسکو بہت سے نقائص ،رذائل اور شھوات کے زندان سے آزاد کر دیتی ہے ۔ انسان کےلئے سب سے محکم زندان خود اسکے نفسانی ھوی و ھوس اور خواھشات ہیں اور حقیقت میں آزاد انسان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اس زندان سے آزاد کر لیا ھو۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ” مَنْ تَرَکَ الشَّھوَاتِ کَانَ حُرّاً جو اپنی خواھشات کو ترک کرنے میں کامیاب ھو جائے وہ ایک آزاد انسان ہے اورروزہ اپنے اسرار کے ساتھ رکھا جائے تو اسکا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ وہ انسان کو نفسانی خواھشات سے آزاد کر کے عظیم اھداف کی طرف متوجہ کر دیتا ہے ۔

فطرت كا تقاضه: ایک سوال انسان کے ذھن میں بارھا اٹھتا ہے کہ دین اور احکام دین اگر فطرت انسانی کے مطابق ہیں جیسا کہ دین اس بات کا دعویدار بھی ہے تو پھر انسان کو دینداری اور احکام دین پر عمل کرنے میں تکلیف اور بعض اوقات ناگواری کا احساس کیوں ھوتا ہے خاص کر روزہ میں یہ احساس مزید بڑھ جاتا ہے ۔ شریعت نے بھی ان احکام کو تکلیف سے تعبیر کیا ہے جبکہ فطری چیزیں انسان کو ناگوار نھیںگزرتیں ۔

اس سوال کے جواب میں  دوباتیں قابل توجہ ہیں  : 

۱۔ فطری چیزیں انسان کو اس وقت تک عزیز ھوتی ہیں جب تک اس نے اپنی فطرت پر غیر فطری چیزیں تحمیل نہ کی ھوں یعنی فطرت جب تک سالم ھوتی ہے وہ مسلسل اپنے فطری تقاضے جاری رکھتی ہے لیکن اگر فطرت پرمسلسل غیر فطری چیزیں تحمیل کی جائیں تو وہ اپنے تقاضے ترک کر دیتی ہے مثلا خدا پرستی انسان کی فطرت میں داخل ہے لیکن مسلسل غیر خدا سے وابستگی کے نتیجے میں انسانی فطرت کمزور ہو جاتی ہے بلکہ ایک منزل وہ آتی ہے جب فطرت کو موت آجاتی ہے اوراس حالت میں پھر اسے دوبارہ فطرت کی طرف پلٹانا تقریبا نا ممکن ھو جاتا ہے لھذا قرآن نے رسول(ص) کو منع کیا کہ اس گروہ کے لئے اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں کیونکہ یہ ایمان لانے والے نھیں ہیں۔ ” سَوَاءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤمِنُون“۔ جس طرح طبیعت پر جب غیر طبیعی چیزیں تحمیل کی جانے لگیں تو طبیعت اپنی طرف سے مزاحمت کرنا ترک کر دیتی ہے اور اسی غیر طبیعی چیز کو نہ صرف قبول کرلیتی ہے بلکہ اسکو پسند بھی کرنے لگتی ہے اور اسی میں لذت محسوس کرتی ہے مثلاً سگریٹ ، شراب و دیگر نشہ آور اشیاء یا بہت سی غذائیں ،جنکے غیر طبیعی ھونے کی دلیل یہ ہے کہ انسان جب انھیں پھلی مرتبہ استعمال کرتا ہے تو سخت ناگواری کا احساس کرتا ہے لیکن کچھ دنوں بعد انھیں چیزوں میں لذت محسوس کرنے لگتا ھے۔

۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ دین مطابق فطرت ھے، نہ مطابق طبیعت ، لیکن چونکہ ھمارے ذھنوں میں طبیعت و فطرت کے مفھوم ایک ہو گیا ہے اور ھم نے فطرت و طبیعت میں موجود فرق کو فراموش کردیا ہے لھذا فطری تقاضوں کو طبیعی تقاضوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں جبکہ فطری تقاضے طبیعی تقاضوں کی بالکل ضد ہیں طبیعی تقاضے یعنی انسان کے جسم اور مادی وجود کے تقاضے اور فطری تقاضے یعنی انسان کی روح اور معنوی وجود کے تقاضے ۔ چونکہ انسانی جسم کے اندرجمادی ، نباتی اور حیوانی پہلو پایا جاتا ہے لھذا اسکے اندر جمادی ، نباتی اور حیوانی تقاضے بھی پائے جاتے ہیں مثلا انسانی جسم کے جمادی پہلوکا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی جگہ پڑا رھے، کوئی حرکت نہ کرے ، رات دن صبح و شام ہر وقت صرف آرام اور استراحت کی فکر میں ھو۔ جسم کے نباتی پھلوکا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے جسم میں اضافہ کرتا رہے ، وہ خود اپنی جگہ قائم ھو اور دوسرے اسکے لئے مناسب غذا ئیں فراھم کرتے رھیں ۔ جسم کے حیوانی پھلوکا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے لئے پسندیدہ غذائیں فراھم کرے، اپنی محبوب غذا کے سراغ میں وہ مسلسل حرکت کرتا رہے ، غذا ملنے پر کھائے اور اسے ھضم کرنے کے بعد مزید غذا کی تلاش میں نکل پڑے ۔ یہ تمام تقاضے انسان کے جسمانی اور طبیعی تقاضے ہیں اور ممکن ہے ان میں سے اکثر تقاضوں کو پورا کرتے وقت انسان کی فطرت اور روح کو سخت کوفت اور اذیت کی منزل سے گذرنا پڑتا ھو ۔ اسکے بر خلاف انسان جب اپنے روحانی تقاضوں کو پورا کرتا ہے مثلاً علم حاصل کرتا ھے، عظیم اھداف کے لئے سخت محنت کرتا ہے ،کمالات کو حاصل کرنے کے لئے جسم سے مستقل کام لیتا ہے یااپنے خالق اور پروردگار کہ جس نے اسکو خلق کیا اور لمحہ بہ لمحہ اسکی پرورش کر رھا ہے ، کی اطاعت و عبادت کرتا ہے تو جسم کو سخت اذیت ھوتی ہے لیکن انسان کی روح اس میں لذت محسوس کرتی ہے اور یہ لذت ان جسمانی لذتوں سے کہیں زیادہ نشاط آور ھوتی ھے۔ مثلا علم کی لذت ، کمالات کی لذت ، یا اطاعت و عبادت کی لذت کا لذیذ ترین کھانوں کی لذت سے موازنہ بھی نھیں کیا جا سکتا اس کا مطلب یہ نھیں ہے کہ انسان جسمانی تقاضوں کو بالکل ترک کر دے اور خود کو موت کی آغوش میں ڈال دے ۔ اھم یہ ہے کہ ایک انسان اپنے اندر کے حالات سے آگاہ ھو اور وہ سمجھ سکے کہ اس پر غلبہ کس کا ہے ؟ جسمانی و طبیعی تقاضوں کا یا روحانی و فطری تقاضوں کا ۔ روزہ در حقیقت انسان کے اندر طبیعی و مادی تقاضوں کو کمزور اور روحانی و معنوی تقاضوں کو طاقتور کرنے کی ایک مشق ہے ۔ باھمت اور صاحب عزم انسان اپنے حقیقی انسانی اور معنوی تقاضوں پر طبیعی و جسمانی تقاضوں کو غالب نھیں آنے دیتا کیوں کہ جسمانی اور طبیعی تقاضوں میں اسیر انسان اپنی زندگی میں کوئی بڑا اقدام یا کسی بلندھدف کا تعاقب نہیں کر سکتا ۔

آخري سوال ؟ پچھلی بحث کے بعد آخری سوال: روزہ نہ رکھنے کی صورت میں انسان کے اندر کون سا نقص پیدا ھوتا ہے ؟ کا جواب بہت آسان ھو گیا ۔ یہ سوال ایسے ھی ہے جیسے کوئی کہے کہ کھانا نہ کھانے سے انسان کے اندر کون سا نقص پیدا ھوتا ھے، پانی نہ پینے ، سانس نہ لینے یا حرکت نہ کرنے سے انسان کو کیا مشکل پیش آتی ہے ؟ روزہ نہ رکھنے سے انسان در حقیقت ان تمام اسرار سے محروم ھو جاتا ہے جو روزہ کے اندر قرار دئے گئے ہیں اور ساتھ ھی ساتھ روزہ کے فوائد سے بھی محروم ھو جاتا ہے ،جس طرح سے کھانا پانی اور حرکت کے بغیر انسان زندگی سے محروم ھو جاتا ہے اسی طرح دین اور احکام دین کو ترک کر دینے سے انسان کی معنوی و حقیقی موت واقع ھو جاتی ہے اگر چہ ظاھر ًا وہ زندہ اور حرکت کر رھا ھوتا ھے”سواء محیاھم و مماتھم “ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی موت اور حیات خدا کے نزدیک برابر ہے ۔


سوالات

1. کیا روزہ انسان کےاندر کمزوری ایجاد کرتا ہے؟

2. روزہ ایک قسم کی پابندی ہے؟ اس بارے میں آپ کی کیا نظر ہے؟

3. کیا روزہ فطرت کے خلاف ہے؟

4. طبیعت اور فطرت میں کیا فرق ہے؟

5. کیا روزہ رکھنے سے انسان کے اندر کوئی کمی پیدا ہوتی ہے؟ وضاحت کریں

اس مقالہ کے بارے میں اپنی رائے letstalkfor@hotmail.com پر بھیجیں