ٹلہ جوگیاں

وکیپیڈیا سے

ہم یقینی طور پر نہیں جانتے کہ ٹلہ کی خانقاہ کب وجود میں آئی لیکن ہمیں کے پہلوٹی کے بیٹے پورن کی داستان میں اس سیالکوٹ کے راجہ سلواہن سوتیلی خانقاہ کا ذکر پہلی مرتبہ ملتا ہے۔ داستان کے مطابق پورن کو اس کی ماں کے لگائے ہوئے بد کاری کے الزام کی وجہ سے ہاتھ پاؤں کاٹ کر شہر سے باہر ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ وہ وہاں زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑا تھا کہ ایک روز ادھر سے گرو گورکناتھ کا گزر ہوا۔ گرو کے ایک چیلے نے کنویں میں پورن کو دیکھا اور گرو کے ہدایت پر اسے باہر نکالا۔ پورن کے گورو کو اپنی کہانی سنائی جس پر گرو بہت رنجیدہ ہوئے۔ بس گرو کا پورن کے مسخ شدہ جسم پر ہاتھ پھیرنا تھا کہ وہ معجزاتی طور پر ٹھیک ہوگیا۔ پنجابی کی معروف رومانی داستان ہیر رانجها میں پنجابی شاعر وارث شاھ نے بهی ٹله جوگیاں کا ذکر کیا هے ـ وارث شاھ کے مطابق گورو گورکهناتھ کے چیلے بالناتھ جوگی نے رانجهے کو جوگی بنایا تها ـ

ٹلہ جوگیاں سلسلہ کوہ نمک پاکستان کا ایک اہم پہاڈ ہے۔ اس کی بلندی 3200 فٹ ہے۔ اس کی چوٹی پر ہندووں کے مندراورپانی جمع کرنے کے تالاب ہیں۔ سکند‍‌ر اعظم، مغل بادشاہ جہانگیر، گورونانک اور رانجھا یہاں آۓ. یہاں سے جہلم 30 کلومیٹر اور قلعہ روہتاس 5 کلومیٹر دور ہے۔ یہ ایک پرفضا مقام ہے۔

پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔ اور اگر آپ شیر شاہ سوری کے مشہور قلعہ رہتاس میں ہوں تو یہی پہاڑ عین جنوب کو نظر آئے گا۔ یہ ہے ٹلہ جوگیاں کا پہاڑ جو کے ایک ہزار میٹر یا تین سو فٹ اونچا ہے۔ اس کی چوٹی پر خستہ کھنڈرات ہیں جو کہ ایک قدیمی خانقاہ کی باقیات ہیں۔ یہاں آپ دو راستوں سے پہنچ سکتے ہیں۔ اول تو جیپ کا رستہ ہے جو قلعہ رہتاس سے ہوتا ہوا سیدھا یہاں پہنچتا ہے۔اس کے علاوہ کئی اور رستے ہیں جو پیدل سفر کے ہیں اور جو پہاڑ کے دامن میں مختلف آبادیوں سے نکلتے ہیں۔ اور یہی وہ رستے ہیں جن کے ذریعے کئی صدیوں تک یاتری ٹلہ جوگیاں کے بیساکھی کے میلے پر آتے رہے ہیں۔

اکبر نامہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نے دو مختلف مواقع پر ٹلہ جوگیاں کی سیر بھی کی۔ انہی شاہی دوروں کا نتیجہ قد آور چیڑ کے پیڑوں کی چھاؤں میں گھرا ہوا مغل طرز کا تالاب ہے۔ یقیناً وہ خشک سالی کا دور ہوگا اور جوگیوں نے بادشاہ سے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیئے تالاب کی درخواست کی ہوگی۔ چند سال پہلے تک تالاب کے بالکل ساتھ ہی کوئی بارہ پندرہ سمادھیاں تھیں لیکن کچھ لالچی لوگوں نے خزانے کے لالچ میں ان سب کو تباہ کر ڈالا۔

تالاب سے شمال کی جانب نظریں کریں تو بوسیدہ اور خستہ حال عمارتوں کا ایک جھمگھٹا ہے۔ یہاں پیپل اور جنگلی زیتون کے گھنے سائے میں مندر اور سمادھیاں ہیں۔ یہاں بھی انسانی لالچ کے ہاتھوں ہونے والی تباہ کاری واضح ہے۔ اگر آپ آثار قدیمہ کے ماہر والی آنکھ رکھتے ہیں تو آپ بھانپ لیں گے کہ اوپر کی سطح والی عمارتوں کے نیچے ایک تہہ مزید پرانی عمارتوں کی ہے۔ کہیں ملبے تلے محراب، کہیں بوسیدہ دیوار اور کہیں سیڑھیاں جو کسی گم گشتہ عمارت کے اندر اترتی تھیں۔ اس سب پر طاری ایک گمبھیر خاموشی جس کو صرف ہوا کی سرگوشی اور پرندوں کا چہچہانا توڑتا ہے۔

مغرب کی جانب ٹلہ کی سب سے اونچی چوٹی پر نیلے آسمان تلے ایک عمارت آپکی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے کیونکہ بناوٹ کے لحاظ سے وہ قائد اعظم کے مزار سے مشابہت رکھتی ہے۔ گمبد والی یہ عمارت تقریباً آٹھ فٹ اونچی ہے اور طرز تعمیر سے واضح طور پر سکھ دور کی ہے۔ اپنے زمانے میں عین اسی مقام پر گورو نانک نے چلہ کشی کی تھی۔ اور پھر ساڑھے تین سو سال بعد راجه رنجیت سنگھ کے دور میں جب گورو نانک کے ماننے والوں نے پنجاب کی حکومت سنبھالی تو اس یاد کو ہمیشہ کے لیئے محفوظ کرنے کی خاطر یہ گمبد کھڑا کیا